Maktaba Wahhabi

119 - 277
کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ چنانچہ مجھے سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے۔میں نے کہا:’’یہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جوتا ہے۔آپ نے یہ مجھے(بطور نشانی)عنایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجھے جو شخص بھی ایسا ملے کہ وہ دل سے اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو میں اسے جنت کی بشارت دوں۔’‘اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا جس سے میں چت گرگیا۔انھوں نے کہا:ابوہریرہ !جاؤ واپس پلٹ جاؤ۔ چنانچہ میں واپس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس حالت میں لوٹا کہ میں شدید رورہا تھا اور میرے پیچھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے۔تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:ابوہریرہ ! تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ میں نے سارا واقعہ آپ کو سنادیا۔ پھر رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:تم نے ایسا کیوں کیا ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اﷲ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،کیا واقعتا آپ نے اپنا جوتا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دے کر یہ بشارت سنانے کا حکم دیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کرکے عمل کرنا چھوڑ دیں گے،لہذا آپ انہیں عمل کرنے دیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ٹھیک ہے،انہیں عمل کرنے دو۔‘‘[مسلم۔۳۱] اس حدیث میں دل کے یقین ساتھ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کی گواہی دینے والے کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یقین ِ قلب اس کلمہ طیبہ پر ایمان لانے کی ایک اہم شرط ہے۔ اور جو آیت کریمہ ہم نے اوپر ذکر کی ہے اس میں(إنما)حصر کا فائدہ دیتا ہے
Flag Counter