Maktaba Wahhabi

61 - 234
فَاَقْدَمُھُمْ سَنًّا وَلَا یَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِیْ سُلْطَانِہٖ وَلَا یَجْلِسُ عَلٰی تَکْرِمَتِہٖ اِلَّا بِاِذْنِہٖ(رواہ مسلم) قوم کی﴿نمازِ باجماعت کی﴾ امامت وہ کرے جو زیادہ قرأۃ یعنی عالمِ قرآن ہو، اگر قرأۃ(و علم) میں سب برابر ہیں تو سنت کو جاننے والا امامت کرے، اگر سنت جاننے میں سب برابر ہیں تو امامت وہ کرے جو ہجرت میں مقدم ہے، اگر ہجرت میں تمام برابر ہیں تو زیادہ عمر والے کو امام مقرر کرنا چاہئے اور کوئی آدمی اس کی حکومت میں امامت نہ کرے، اور اس کی عزت کی جگہ اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔ جب دو آدمی برابر ہیں، اور دونوں میں سے کسی ایک کا اصلح﴿بہتر﴾ ہونا معلوم نہ ہو سکے تو قرعہ ڈالنا چاہئے، جس طرح کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جنگ قادسیہ کے مو قع پر کیا تھا، لوگ باہم مشاجرۃ(یعنی لڑنے) اور جنگ کے لیے تیا ہو گئے کہ اذان ہم کہیں گے اور بہت سے آدمی اپنا استحقاق جتانے لگے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی اتباع﴿پیروی﴾ کی گئی کہ: لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِی النِّدَائِ وَالصَّفِّ الْاَوَّلِ ثُمَّ لَمْ یَجِدُوْا اِلَّا اَنْ یَسْتَھِمُوْا عَلَیْہِ لَا سْتَھَمُوْا اور لوگ اذان کی حقیقت اور صف اوّل کا ثواب سمجھ لیں تو اذان اور صف اوّل کے لیے قرعہ ڈالنے کی ضرورت پڑے تو قرعہ ڈالیں مگر ہا تھ سے نہ جانے دیں۔ جب وجہ ترجیح مخفی ہو تو قرعہ ڈالے، ایسا کر لیا تو متولی امر﴿یعنی حاکم﴾ نے امامت کا حق ادا کر دیا، اور اس کی ولایت مستحق و حقدار کو پہنچا دی۔ نوٹ:امانتوں کی ایک قسم یعنی حکومت و اقتدار اور اختیار حقدار، اہل اور ’’اصلح‘‘ شخص کو دینے﴿یعنی ٹرانسفر آف پاور Transfer ،f P،wer﴾ کے متعلق بحث مکمل ہوئی۔ اب امانت کی دوسری قسم ’’مال و دولت کی تقسیم‘‘ کے متعلق گذارشات پیش کی جائیں گی۔
Flag Counter