Maktaba Wahhabi

53 - 234
یا احسان و ر غبت کی، بہرحال کفایت کی ضرورت ہے۔ بعض علماء سے پوچھا گیا کہ قضاء﴿عدلیہ﴾ کے لیے کوئی آدمی﴿ یعنی جج﴾ نہیں ملتا۔ اور ملتا ہے تو ایسا کہ عالم فاسق ہے یا جاہل دیندار، ان دونوں میں سے کسے ترجیح دی جائے؟ انہوں نے جواب دیا اگر غلبہ فساد کی وجہ سے دین میں خلل واقع ہو رہا ہے تو جاہل دیندار کو مقدم رکھا جائے۔ اور اگر غفلت حکام کی وجہ سے دین میں خلل واقع ہو رہا ہے تو عالم فاسق کو مقدم رکھا جائے اور اکثر علماء جاہل دیندار کو مقدم رکھتے ہیں کیونکہ تمام ائمہ دین کا اس پر اتفاق ہے کہ متولی، امیر ایسا شخص ہو جو عادل اور شہادت کا اہل ہو۔ اور شرطِ علم میں اختلاف ہے کہ کس قسم کا متولی امر﴿جج﴾ ہونا چاہئے! آیا وہ مجتہد ہو یا مقلد! یا امثل فالامثل کہ جیسا آدمی مل جائے مقرر کر لیا جائے۔ اس مسئلہ میں بحث و کلام کے لیے دوسری جگہ ہے۔ یہاں اس کا موقع نہیں ہے۔ بہر حال غیر اہل کو متولی امر﴿ذمہ داری﴾ بنانا ضرورت کے لیے جائز ہے اور اصلح﴿یعنی بہتر﴾ کے موجود ہوتے ہوئے بھی جائز ہے، حالات کی اصلاح کا خیا ل رکھنا فرض ہے تاکہ ولایت امر اور امارت﴿حکومت﴾ کی رعایا اور عامتہ الناس کو ضرورت ہے وہ پوری ہو جائے، جس طرح کہ معسروتنگ دست کے لیے یہ ضروری ہے کہ قرض اور دین﴿یعنی جرمانہ﴾ ادا کرنے کے لیے کوشش کرے، لیکن فی الحال اس سے اسی قدر﴿مالیت﴾ کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے جس قدر﴿مالیت﴾ کے ادا کرنے کی توفیق ہو، اور جس طرح کہ جہاد کی تیاری کے لیے قوت اور گھوڑے باندھنے کا حکم ہے لیکن عجز و بے بسی کے وقت ساقط ہو جاتا ہے اور حسب استطاعت جو کچھ میسر آئے کرنا فرض ہے، اور ضروری ہے کہ جس قدر واجب و فرض ہے اُسے پورا کیا جائے بخلاف حج اور دوسری عبادتیں کہ ان میں یہ حکم نہیں ہے۔ بلکہ حج وغیرہ اس پر فرض ہے جو۔ مَنِ اسْتَطَا عَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط(آل عمران:97) جس کو اس تک پہنچنے کا مقدور(یعنی اسباب و قوت) ہو۔ یہ فرض ہے کہ وہ استطاعت و قدرت پیدا کرے، کیونکہ حج واجب ہی اس وقت ہوتا ہے جب استطاعت موجود ہو۔ استطاعت پیدا کر نا اس پر فرض نہیں ہے۔
Flag Counter