Maktaba Wahhabi

34 - 234
کیسے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، تحصیلدار، آئی۔جی، ڈی۔آئی۔ جی اور انکے نا ئب ایس۔پی۔ ڈی۔ایس۔پی، فوڈ اور کسٹم انسپکٹرز وغیرہ، ایس۔ایچ۔او، پولیس کے چھوٹے بڑے عہدے دار اور حاکم﴿یعنی﴾ گورنر، وزیر، مشیر، ناظم الامور اور ان کے نائب مقرر کئے جائیں۔ اور یہ لوگ فوج کے اعلیٰ و ادنیٰ افسران، لشکر اسلام(اسلامی فوج) کے سردار چھوٹے بڑے، مسلمانوں کا مال وصول کرنے والے وزراء، منشی، کاتب، جزیہ، خراج و صدقات، زمین کا محصول اور زکاۃو صول کرنے والے اور اس میں کوشش کرنے والے وغیرہ جو مسلمانوں سے مال اور پیسہ وصول کرتے ہیں، سب شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے نائب اور ماتحت ایسے افسران مقرر کریں جو مسلمانوں کے لیے بہتر اور اصلاح کرنے والے ہوں۔ اور کوشش کریں کہ اصلح﴿متقی اور زیادہ صلاحیتوں کے حامل﴾ کے ہوتے ہوئے غیر اصلح﴿یعنی فاسق و فاجر اور کم صلاحیتوں کے حامل﴾ کو مقرر نہ کریں۔ اور یہ سلسلہ نماز کے اماموں مؤذنوں، خطیبوں، قاریوں، معلّموں اور امیر الحاج، کنوؤں چشموں کی دیکھ بھال کرنے والوں،مال کے محافظوں قلعوں کی حراست{یعنی استقبالیہ کلرک(Recepti،nest)ٹیلی فون آپریٹرز اور چوکیداری(Gate Keeping etc.)﴾ کرنے والوں اور لوہار﴿یعنی اسلحہ، گولہ و بارود بنانے والے﴾جو قلعوں﴿یعنی فیکٹریوں﴾ پر مامور ہوتے ہیں، قلعوں کے دربانوں، فوج و لشکر کے افسروں، قبائل کے شرفاء﴿یعنی عمائدین و سردار﴾ اور ٹریڈ یونین کے عہدیداروں، دیہات اور بستیوں کے دیہاتی روساء﴿یعنی چوہدریوں، وڈیروں، جاگیرداروں اور خان زادوں﴾ وغیرہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا اولین فرض ہے کہ جب کبھی مسلمانوں کے کسی کام میں والی، حاکم یا افسر مقرر کریں، اپنے ماتحت ایسے لوگو ں کو کام سپرد کریں جو اصلح﴿زیادہ لائق اور بہتر منتظم﴾ ہوں، اور کام پر کافی قدرت و دسترس رکھتے ہوں۔ اور ان آدمیوں کو مقدم نہ رکھیں جو خود حاکم بننے اور حکومت لینے اور افسر بننا چاہتے ہوں یا اس کی طلب میں درخواست دی ہو(جیسے آج کا ووٹنگ سسٹم ہے) بلکہ طلب کرنا اور درخواست دینا تو اُسے جگہ نہ دینے کا ایک بہت بڑا سبب ہے کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: عَنِ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم اِنَّ قَوْمًا دَخَلُوْا عَلَیْہِ سَئَلُوْہُ وَلَایَۃً فَقَالَ اِنَّا لَا نُوَلِّیْ اَمَرَنَا ھٰذَا مَنْ
Flag Counter