Maktaba Wahhabi

148 - 234
بجھانا، اللہ کی مخلوق پر اپنی بڑائی اور بلندی جتلانا مقصود نہ ہو، جس طرح کہ باپ اپنے بیٹے کو ادب دیتا ہے، ادب سکھاتا ہے۔ اگر وہ اپنے لڑکے، لڑکی کی تادیب﴿یعنی سرزنش﴾ سے اپنے آپ کو باز رکھتا ہے اور اُس کی ماں کے حوالہ کر دیتا ہے اور اس کی ماں نرم طبیعت اور ممتا کی وجہ سے ایسا برتاؤ کرتی ہے کہ لڑکا بالکل خراب ہوکر رہ جاتا ہے۔ باپ اُس کو ادب سکھاتا ہے، اُس کی اصلاح چاہتا ہے اور یہ عین رحمت و رافت ہے، لڑکے کی اصلاح ہے۔ اس کی عین خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تادیب﴿سرزنش﴾ ایسی ہو جائے کہ پھر کبھی وہ سر نہ اُٹھائے اور دوسری مرتبہ ادب سکھانے کی ضرورت نہ رہے۔ اور﴿حد جاری کرنا﴾ بمنزلہ اُس طبیب کے ہے جو مریض کو کریہہ اور کڑوی دوا دیتا ہے۔ یا بمنزلہ اس عضو کے ہے جو سڑ رہا ہے اور اُسے کاٹنے سے وہ خود بچ جاتا ہے۔ یا بمنزلہ پچھنے لگانے کے ہے کہ رگوں کو اس لیے زخمی کیاجاتا ہے کہ اُسے آرام ملے۔ یا بمنزلہ فصد کھولنے کے ہے بلکہ بمنزلہ اُس انسان کے ہے جسے کریہہ اور کڑوی دوا پلانے کے لیے سختی کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ مریض کو شفا اور آرام ملے اور اُسے راحت میسر آئے۔ یہی حال حدود جاری اور قائم کرنے کا ہے۔ محدود﴿جس پر حد نافذ کی گئی اس﴾ کو راحت ملے، حدود مشروع اسی لیے کی گئی ہیں کہ محدود کو دنیا و عقبیٰ میں آرام و راحت میسر آئے۔ حدود جاری کرنے میں والی﴿قاضی و جج﴾ اور حاکمِ﴿وقت﴾ کی نیت، ارادہ اور قصد یہی ہونا چاہیئے کہ رعایا کی اصلاح ہو اور منکرات سے روکا جائے مخلوق اللہ کے لیے فائدہ پہنچانا اور نقصان سے بچانا مقصود ہو اور﴿حد جاری کرنے والا﴾ حق سبحانہ و تعالیٰ سے حدود قائم اور جاری کرنے میں اللہ کی رضا مندی و رضا جوئی اور خوشنودی کا قصدو اِرادہ رکھے، اس کے حکم کی اطاعت و پیروی کا قصد وارادہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے قلوب کو نرم کر دے اور محدود﴿جس پر حد جاری کی گئی اس﴾ کے لیے اسبابِ خیر جمع کر دے اس کے لیے جو عقوبت و سزا اور شرعی حد قائم کی گئی وہ اس کے لیے کافی ہو، وہ اس سے راضی رہے کہ اس کی تطہیر(یعنی گناہ سے پاکی) ہورہی ہے ایسا سمجھنا اور اس طرح حد کاجاری اور نافذ ہونا اللہ کا عین فضل و کرم ہے۔ جب حد نافذ کرنے والے حاکم و قاضی یا جج کی نیت خراب ہو، اس کی غرض غرور اور بڑائی ہو اور وہ
Flag Counter