Maktaba Wahhabi

135 - 234
شریعت اسلامیہ سے خارج ہے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں اس کی اعانت و امداد کی ہے تو بوجہ اس کے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال کیا ہے، ان کو قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر ایسے لوگ ہیں کہ ڈکیتی، راہزنی نہیں کرتے، بلکہ قافلوں کی پاسبانی اور نگہبانی کے معاوضہ میں بطور خراج و ٹیکس کے مقررہ رقم وصول کرتے ہیں جو مسافروں، جانوروں اور اونٹوں وغیرہ پر لیتے ہیں تو اُن لوگوں کا معاملہ چنگی وصول کرنے والوں جیسا ہو گا۔ اور چنگی وصول کرنے والوں جیسی عقوبت و سزا ہو گی۔ فقہاء نے ایسے لوگوں کو قتل کرنے کے جواز میں اختلاف کیا ہے کیونکہ وہ قطاع الطریق، ڈاکو اور راہزن نہیں ہیں۔ لیکن ان کے بغیر بھی راستہ جاری اور چالو رہتا ہے۔ باوجود اس کے ایسے لوگ ’’اَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ ہوں گے۔ جیسا کہ نبی کریم ا نے ایک غامدیہ عورت کے بارے میں فرمایا ہے: لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَھَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَلَہٗ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر چنگی ٹیکس وصول کرنے والا ایسی توبہ کر لے تو اُس کی بھی مغفرت ہو جائے گی۔ اور ایسے لوگ جن کا مال برآمد کرتا ہے، اور مسلمانوں کی اجتماعی طاقت ان کی پشت پر ہے، اور محارب لوگوں سے لڑتی ہے، ان کے لیے مال قطعاً خرچ نہ کیا جائے جبکہ جنگ و قتل ان سے ممکن ہو۔ نبی کریم ا کا ارشاد ہے: مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دَمِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دِیْنِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ حُرْمَتِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے، جو شخص اپنی جان بچانے میں قتل ہوا وہ شہید ہے، جو شخص اپنا دین بچانے میں قتل ہوا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل و عیال کی حرمت بچانے میں قتل ہوا وہ بھی شہید ہے۔ فقہاء نے اس جگہ ’’الصائل‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بلا تاویل، بلاولایت و حکومت کے ظلم کرتا ہے۔
Flag Counter