Maktaba Wahhabi

126 - 234
سے یا کسی اور وجہ خاص اور اسباب کی وجہ سے قتل کیا ہے تو مقتول کے اولیاء اور ورثاء کو اختیار دے دیا جائے، یہ چاہیں تو اُسے قتل کر دیں، چاہیں معاف کر دیں۔ اور چاہیں تو دیت و خون بہا لے لیں۔ کیونکہ غرض خاص اور وجہ مخصوص کی بنا پر قتل کیا گیا ہے۔ محارب﴿لڑائی کرنے والے، جنگی مجرم، کرائے کے قاتل اور ہشت گرد﴾ سب کے سب قتل کر دیئے جائیں کیونکہ انہوں نے مال لوٹا ہے، اور ان کا ضرر و نقصان عام ہے۔ یہ بمنزلہ چوروں کے ہیں اور انہیں قتل کرنا حد کی بنا پر ہو گا۔ اور یہ مسئلہ تمام فقہاء کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ اگر مقتول کفو من قاتل کے برابر نہیں ہے مثلاً قاتل حُر و آزاد ہے اور مقتول غلام ہے، یا قاتل مسلمان ہے اور مقتول غیر مسلم ذمی یا جسے امان دی گئی ہے تو فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ محارب ہونے کی وجہ سے قتل کیا جائے۔ اور قوی قول یہی ہے کہ قتل کر دیا جائے کیونکہ فساد عام کے اعتبار سے بربنائے حد قتل کیا جائے گا۔ جس طرح کہ لوگوں کا مال لینے کی وجہ سے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں اور لوگوں کے حقوق کی بنا پر حبس و قید میں رکھا جاتا ہے۔ اگر محارب راہزنوں اور چوروں کی ایک جماعت ہے اور ان میں سے ایک قتل کا مرتکب ہے اور دوسرے اس کے معاون و مددگار ہیں تو کہا گیا ہے کہ جو شخص قتل کا مرتب ہے فقط اُسے قتل کیا جائے۔ اور جمہور علماء کا قول ہے کہ سب کو قتل کر دیا جائے، اگرچہ ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہو۔ خلفاء راشدین سے یہ ماثور ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے محارب لوگوں کے اس نگران کو جو بلند مقام پر بیٹھ کر مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا کرتا تھا اور کافروں کو اطلاع دیا کرتا تھا کہ کون آیا اور کون گیا، قتل کرا دیا تھا۔ اس لیے کہ قتل کرنے والا ان کی معاونت و امداد سے قتل کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ اور ان کی اعانت و امداد سے ظفریاب اور متمتع ہوتا ہے۔ اور اس لیے ثواب و عقاب میں سب کے سب مشترک ہوں گے جیسے کہ مجاہدین ثواب اور مال میں سب مشترک ہوتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اَلْمُسْلِمُوْنَ تَتکَافَائُ دِمَائُھُمْ وَ یَسْعٰی بِذِمَّتِھِمْ اَدْنَاھُمْ وَھُمْ یَدٌ عَلٰی سِوَاھُمْ وَ یُرَدُّ متسَریھِمْ عَلٰی قَاعِدَتِھِمْ تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں اور ادنیٰ آدمی کا ذمہ بھی پورا کیا جائے گا۔ اغیار کے مقابلہ
Flag Counter