Maktaba Wahhabi

106 - 234
گرادئے تھے۔ اور ان کے اندر رذیل خصلتیں پیوست کر دی تھیں۔ اس کی نحوست کی وجہ سے ان کی سر زمین میں اتنی صلاحیت ہی نہ رہی تھی کہ عبادت الٰہی اور مکارم اخلاق کا بیج اس کے اندر جڑ پکڑسکے۔ جب روم و عجم کے ممالک پر یہ مصیبت حد سے بڑھ گئی اور حد سے متجاوز ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھا۔ اور اس نے اس مرض کا علاج کرنے کا فیصلہ کر دیا کہ مرض کی جڑ کاٹ ڈالی جائے۔ چنانچہ ایک نبی اُمی(صلی اللہ علیہ وسلم)کو مبعوث فرمایا جو رومیوں اور عجمیوں سے گھلا ملا نہ تھا۔ اور جس تک ان کی عادات اطوار، خصائل کا کوئی اثر نہ پہنچا تھا۔ اس کو صحیح اور غلط، صالح اور فاسد، میں امتیاز کرنے والی میزان بنا دیا۔ اس کی زبان سے عجمی اور رومی عاداتِ قبیحہ کی مذمت کرائی۔ حیاتِ دنیا میں استغراق اور لذات دینوی میں انہماک کو مردود ٹھہرایا، عجمی عیش پرستی کے ارکان میں سے ایک ایک کو چن چن کر حرام کیا مثلاً سونے اور چاندی کے برتن، سونے جواہرات کے زیور، ریشمی کپڑے، تصاویر اور مجسمے وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرداری سے روم وعجم کی سرداری کا استیصال کر دیااور اعلان کرادیا کہ: ہَلَکَ کِسْر یٰ فلَاَ کِسْریٰ بَعْدَہَ۔ وَ ہَلَکَ قَیْصَرُ فلَاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔(انتھی ملخصاً ازباب اقامتہ الارتفاقات واصلاح الرسوم) غرض! بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو حال ایران و روم کا تھا کہ معمورۂ دنیا پر چھا ئے ہوئے تھے، ساری دنیا انہی دو سلطنتوں کی غلامی کے شکنجہ میں کسئی ہوئی تھی، آج دنیا امریکہ اور یورپی یونین کی غلامی کے شکنجہ میں کسی ہوئی ہے۔ کہنے کو آزادہیں، لیکن حقیقت میں غلام ہیں۔ انہی کی غیر صالحہ سیاست کو سیاست سمجھتی ہے، انہی کے مفرطانہ عیش پرستی، عیش کوشی کو زندگی کا ڈھانچہ سمجھتی ہے، انہی کے اخلاق وکر دار کی غلامی میں زندگی گذارتی ہے، اورآج انہی کی سائنس نے دنیا کو عذاب الیم میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اگر دنیا آج اپنے لیے امن چاہتی ہے، روٹی چاہتی ہے، امن و سکون کی زندگی گذارنا چاہتی ہے۔ دنیا اور آخرت بنانا چاہتی ہے، دنیا میں امن وچین سے رہ کر اللہ کو یا د کرنا چاہتی ہے، دنیا اور آخرت دونوں بنانا چاہتی ہے، تو اسلام کے دستور کو اپنائے، کہ یہ آسمانی دستور ہے، قرآنی دستور العمل ہے، ملک اللہ کا ہے تو حکومت بھی اللہ کی ہونی چاہئے ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا ِاللّٰه ‘‘(یونس:67) قواعد و ضوابط بھی اللہ ہی کے نافذ ہونے چاہئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء ث اجمعین نے انہی قواعد و ضوابط کی طاقت سے ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ دنیا کا نقشہ تبدیل کر دیا۔ روم و ایران کا تختہ الٹ دیا اور دنیا پر اللہ کی حکومت قائم کر دی۔ نصف صدی بھی نہ گذرنے پائی تھی کہ قرآنی حکومت دنیا پر قائم کر دی۔ اور دنیا کے لیے رحمت و رافت، امن وچین، رحمت وسکون کی حکومت کھڑی کر دی۔ اور ’’اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَھْلِھَا‘‘ کی ہمہ گیر طاقت ساری دنیا پر چھا گئی۔ کاش مسلمان جاگیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین ث اجمعین کی پیروی کریں تو پھر یہ دنیا والوں کے لیے جنت بن جائے۔ لَعَلَّ اللّٰه یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا(طلاق:1)(ابوالعلاء محمد اسمٰعیل گودھروی کان اللّٰه لہٗ)
Flag Counter