ابو محمد کہتے ہیں کہ جب دونوں مذکورہ صورتیں باطل قرار پائیں تو پھر صرف تیسری صورت ہی باقی رہتی ہے اور وہ یہ کہ ہم وہ بات لیں جس پر ان کا اتفاق ہے ان کا اتفاق اسی پر ہوتا ہے جس پر دیگر صحابہ کا ان کے ساتھ اتفاق ہو اور نبی کی سنتوں کی اتباع اور ان کے مطابق ان کے رائے ہو۔اسی طرح جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلفائے راشدین کی سنتوں کی اتباع کا حکم کرتے ہیں تو یہ دو وجوہ سے خالی نہیں ہوتا۔ 1۔ یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی تھی کہ رسول کی سنتوں کے علاوہ سنتیں بنائیں یہ تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا اور جو اس کو جائز سمجھتا ہے وہ کافر مرتد ہے اس کی جان ومال حلال ہے۔اس لئے کہ دین یا تو واجب ہے یا غیر واجب یا حرام ہے یا حلال دین میں ان کے علاوہ کوئی اور صورت ہے ہی نہیں۔ اب اگر کوئی شخص اس بات کو جائز قرار دیتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے علاوہ خلفاء کی اپنی الگ سنتیں بھی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلفا کے لئے جائز ہے کہ ایسی چیز کو حرام قرار دیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آپ کی وفات تک حلال تھی اوریہ خلفاء ایسی چیز کو حلال قرار دیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دی تھی یا یہ خلفاء ایسی چیز کو واجب قرار دیں جسے رسول نے واجب نہیں کیا،یا کسی چیز کو ساقط کریں جسے نبی نے واجب کیا تھا،اور آپ کی رحلت تک وہ ساقط نہیں ہوئی تھی۔ ان تمام صورتوں میں سے جس صورت کو بھی کوئی شخص جائز قرار دے گا وہ باجماع امت بغیر کسی اختلاف کے مشرک کافر ہے۔یہ صورت بھی باطل قرار پائی۔ |