Maktaba Wahhabi

39 - 111
’’اے عائشہ ! اس کا پانی انتہائی سرخ رنگ کا ہوچکا تھا اور اس کی کھجوروں کے سر ایسے تھے جیسے شیطان کے سر ہوں ‘‘ (یعنی وہ انتہائی بدشکل تھیں ) میں نے کہا:اے اللہ کے رسول ا! آپ نے جادو کنویں سے نکالا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے مجھے عافیت دی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگ کسی شر اور فتنہ میں مبتلا ہوجائیں ‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکالنے کا حکم دیا اور پھر اسے زمین میں دبا دیا گیا۔[1] شرحِ حدیث: یہودیوں نے لبید بن اعصم (جو ان میں سب سے بڑا جادوگر تھا) کے ساتھ یہ بات طے کر لی تھی کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرے گا اور وہ اسے اس کے بدلے میں تین دینا ر دیں گے، چنانچہ اس بدبخت نے یہ کام اس طرح کر ڈالا کہ ایک چھوٹی سی لڑکی کے ذریعے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آتی جاتی تھی، آپ کے چند بال منگوا لئے اور ان پر جادو کرکے انہیں بئر ذروان میں رکھ دیا۔ اس حدیث کی مختلف روایات کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جادو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں کے قریب جانے سے روکنے کے لئے تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی سے جماع کرسکتے ہیں ، پھر جب قریب ہوتے تو نہ کر پاتے، بس اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریہی اثر تھا ، اس کے علاوہ آپ کی عقل اور آپ کے تصرفات جادو کے اثر سے محفوظ تھے۔ اس جادو کی مدت میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، بعض نے چالیس دن اور بعض نے کوئی اور مدت بیان کی ہے۔ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس کی مدت کتنی تھی، پھر نبی کریم ا نے اللہ تعالیٰ سے بار بار دعا کی ، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کر لی اور دو فرشتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اتار دیا۔ ان کے درمیان ایک مکالمہ ہوا (جو گذشتہ سطور میں بیان کیا گیا ہے) اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوگیا کہ جادو کس نے کیا ہے ، کس چیز میں کیا ہے اور وہ اس وقت کہاں ہے۔
Flag Counter