معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا۔ اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کر لی۔ آپ نے خریداروں کا اتا پتا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ پر بڑا ملال تھا، فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی تلاش میں چل دیئے۔ ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو جا لیا۔ اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں۔ وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کے لئے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اس کے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا۔ ہم وہاں تین دن تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو تلاش کرتے رہے۔ آخر تین دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا۔ تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا، آپ نے فرمایا بھائیو! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے۔ سودا کرتے ہوئے میرے ملازم کو بتانا بھول گیا۔ اب وہ اونٹ مجھے دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے انہیں ابھی تک اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ فوراً پہچان لیا اور وہ اونٹ ان سے لے کر اس کی قیمت واپس کر دی۔ بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو انہوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا۔ فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہو گئے۔ یہ اسی راستبازی کا اثر تھا کہ لوگ اپنی قیمتی امانتیں بلا کھٹکے آپ کے پاس رکھ جاتے اور جب چاہتے صحیح سلامت واپس لے لیتے۔ اعلانِ نبوت کے بعد بھی آپ کے جانی دشمن اپنی امانتیں آپ ہی کے پاس رکھا کرتے۔ حتیٰ کہ ہجرت کی رات کو جب کہ اعداءِ اسلام نے ننگی تلواروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا۔ تم آج رات میرے بستر پر لیٹ جاؤ، اورکل ہر ایک کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آجانا۔‘‘ تجارت کی خاطر آپ نے بصریٰ اور مدینہ کی جانب بھی کئی تجارتی سفرکئے اور انہی سفروں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی تجارتی شاہراہوں کے ہر پیش و خم سے آگاہ ہو گئے۔ خصوصاً مدینہ کی سیاسی اور جغرافیائی حیثیت اچھی طرح سمجھ لی ۔ [1] |