کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا، بلکہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت قرآن کریم خود فراہم کرتا ہے۔ لِاِیْلٰفِ قُرِیْش. الٰفِھِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْف (قريش) (قریش کے خوگر ہونے کی بنا پر۔ یعنی اپنے جاڑے اور گرمی کے سفروں سے خوگر ہونے کی بنا پر) عصرِ حاضر کے مشہور محقّق ڈاکٹر محمد حمید اللہ اپنی فاضل کتاب ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں۔‘‘ چین و عرب کی تجارت عرب ہی سے ہو کر یورپ جاتی تھی، قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا، مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انہوں نے جو تجارتی معاہدے (ایلاف) کر کھے تھے اور ’’رحلة الشتاء والصيف‘‘ کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے۔ وہ سب سب جانتے ہیں۔ (ص ۳۷) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی و امی ) نے خانوادۂ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں۔ اور اسی تجارتی ماحول میں نشوونما پائی۔ لہٰذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشہ سے الگ کیسے رہ سکتے تھے۔ آپ کے چچا حضرت ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لئے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے۔ دادا کی وفات کے بعد انہوں نے آپ کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا۔ اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ ان سفروں پر لے جانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی بار بارہ ۱۲ سال دو ماہ کی عمر میں اپنے چچا ابو طالب کی معیّت میں شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اسی سفر میں عیسائی (یا بقولِ بعض یہودی) راہب ’بحیرا‘ کی آپ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پُر نور و پُر جلال چہرے پر علاماتِ نبوت مرتسم دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشین گوئی کا مصداق پایا تو حضرت ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر عظیم انسان بنے گا۔ لہٰذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابو طالب نے فی الفور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس بھیج دیا۔ آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے چچا ابو طالب کے کندھوں کو جو پہلے ہی کثیر العیال تھے مزید گرانبار نہ کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے تجارت کو جاری رکھا۔ آپ اپنے تجارتی معاملات بڑی دیانتداری سے نبھاتے۔ راستبازی اور صدق و دیانت کا بڑا خیال رکھتے۔ کاروبار کی کامیابی اور اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے صدق و دیانتداری کے دو سیدھے سادھے اصول ہیں، بالفاظ دیگر راستبازی اور دیانتداری پر ہی دوکانِ تجارت کا چمکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جلد ہی اپنے اوصاف کی بنا پر مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہو |