Maktaba Wahhabi

99 - 224
معنی مراد لینا مجاز ہے۔ جیسے اسد کہہ کر اس سے بہادر شخص مراد لیا جائے اور نصوص شارع احکام شرعیہ بیان کرنے کے لیے وارد ہیں ۔اس لیے ان کا حقیقی معنی کی بجائے کوئی مجازی معنی لینا بیانِ مقصود کے منافی ہے۔ ہمیں اس موضوع سے کوئی بحث نہیں ۔ مختصر یہ ہے کہ جمہور علماء لفظِ شارع میں مجاز کے قائل ہیں ۔ ابن قدامہ وغیرہ علماء اُصول کی رائے ہے کہ انکار مکابرہ ہے۔ [1] کلام شارع سمجھنے میں اسی لیے علماء کا اختلاف اور حقیقت و مجاز کا تردد پیدا ہوجاتا ہے۔ کسی لفظ مفرد میں دو معانی کا احتمال ہے تو اسے کچھ معنی حقیقی پر محمول کر لیتے ہیں اور کچھ اس کا معنی مجازی مراد لیتے ہیں ۔ جیسے لفظ ’’المیزان‘‘ ہے اس کا حقیقی معنی ترازو ہے لیکن مجازاً عدل کے لیے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَالسَّمَآئَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ o اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ o وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزَانَo ﴾ (الرحمن: ۷ تا ۹ ) ’’آسمان کو بلند کیا اور میزان قائم کیا کہ اس میں تم بے اعتدالی نہ کرو۔ انصاف کے ساتھ تولو اور وزن نہ گھٹاؤ۔‘ اور آیت کریمہ: ﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ (الحدید: ۲۵) ’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل کے ساتھ بھیجا۔ ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اُتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔‘‘ اس میں المیزان ترازو کے معنی میں بھی ہے۔ [2] اسی طرح عروض کو میزان الشعر اور نحو کو میزان الکلام[3] کہا جاتا ہے اور لفظ سلسلہ وغیرہ
Flag Counter