Maktaba Wahhabi

67 - 224
درمیان مشیئت خداوندی سے آپس میں شمشیر زنی اور نیزہ بازی ہو چکی تھی لیکن جو نور انہوں نے شمع نبوت سے پایا تھا ، وہ ان کے دلوں کو جگمگاتا رہا جس سے کینہ اور بغض و حسد کی ظلمتیں ان کے قریب نہ آسکیں اور ادب اختلاف کی اتنی عظیم الشان مثالیں انہوں نے پیش فرما دیں ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ سیّدنا علی کی تعریف سے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کا گریہ و بُکا: ابو صالح نے کہا کہ ایک روز ضرار بن ضمرہ کنانی سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ نے ضرار سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کے کچھ اوصاف بیان کرو۔ انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! مجھے معاف رکھیں ۔ آپ نے کہا: نہیں آپ بیان کرو۔ ضرار نے کہا: جب کچھ بتانا ضروری ہی ہے تو سنیں : ’’ بخدا وہ ایک بلند نظر دُور اندیش اور ایک طاقت ور انسان تھے۔ ان کی بات فیصلہ کن اور حکم عادلانْہ ہوتا تھا۔ ان کے اطراف و جوانب سے علم و حکمت کے چشمے پھوٹتے تھے دنیا اور اس کی رنگینیوں سے دُور رہ کر رات کی تاریکیوں سے مانوس رہتے تھے۔ واللہ وہ بہت روتے تھے اور سوچ میں غرق رہتے تھے۔ اپنی ہتھیلیاں اُلٹتے پلٹتے تھے اور اپنے آپ سے باتیں کیا کرتے تھے ۔موٹا جھوٹا لباس اور کھانا پسند کرتے تھے۔ بخدا! ہمیں جیسے ایک آدمی نظر آتے تھے۔ان کے پاس ہم جب جاتے تو وہ ہمیں قریب رکھتے اور ہماری باتوں کا جواب دیتے۔ لیکن اتنے قرب کے باوجود ان کی ایسی ہیبت تھی کہ ہم ان سے بات نہیں کر پاتے تھے۔ وہ مسکراتے تو موتیوں جیسے دانت نظر آتے۔ وہ دین داروں کو تعظیم کرتے اور فقراء و مساکین سے محبت رکھتے۔ کوئی طاقت ور آدمی ان سے کسی غلط کام کرانے کی بات نہیں سوچ سکتا تھا اور کوئی کمزور آدمی ان کے عدل سے کبھی مایوس نہ ہوتا تھا۔ میں خدا کو حاضر سمجھ کر کہتا ہوں کہ شب کی تاریکیوں میں انہیں بعض مواقع پر
Flag Counter