Maktaba Wahhabi

230 - 224
معصوم نہیں اور اگر ایسی بات ہوتی تو مخطیٔ مجتہد کو ثواب نہ ملتا۔ اس بیان کے بعد اب ہم ان مبادئی و آداب کے ذکر سے اپنی بات پوری کر رہے ہیں جن کا اختلاف کے وقت پاس و لحاظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ ہیں : اخلاص اور ارادۂ حق: بحث و نظر اور مناظرے کے وقت ضروری ہے کہ مقصد حق اور حق تک رسائی ہونا چاہیے، اور طالب علم اس کے لیے بالکل خالی الذہن ہو۔ یہ کام بسا اوقات دیکھنے میں بڑا آسان اور قابل عمل ہوتا ہے لیکن اس پر عمل کرنا اور کاربند ہونا بڑا دشوار اور مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ بظاہر داعی حق ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ذات کے داعی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد اپنی بڑائی یا اپنے استاذ کی حمایت ہوتی ہے۔ اور شاید اسی میں یہ غلو بھی شامل ہے جو بعض طلباء کو بحث کے دوران شخصی تنقید یا کسی کی ذات سے متعلق عبارات پر مجبور کرتا ہے جس سے وہ دوسرے کو ذلیل کرتا یا بیوقوف قرار دیتا یا اسے بے راہ روی کا الزام دیتا ہے۔ ایسا غلو ذاتی مفاد کے لیے ہوتا ہے، حق کے لیے یقینا نہیں ہوسکتا۔ مخالفت و اختلاف سے حتیٰ الامکان احتراز: مخالفت و اختلاف سے حتیٰ الامکان پرہیز چند باتوں کے ذریعہ ممکن ہے: ۱: طلباء کے ساتھ حسن ظن اور اسلامی بھائی چارے کو ہر حیثیت سے بلند رکھ کر۔ ۲: جو کچھ ان سے صادر ہو یا ان کی طرف منسوب ہو اسے حتیٰ الامکان اچھی بات پر محمول کرکے۔ ۳: اگر ان سے کوئی ایسی بات صادر ہوجائے جسے بہتری پر محمول نہ کیا جاسکتا ہو تو ان کی طرف سے معذرت خواہی کی جائے اور انہیں نیک نیتی سے محروم نہ کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے لیے ایسا عذر تلاش کیا جائے جن سے اپنا سینہ صاف اور نفس خوش رہے۔
Flag Counter