Maktaba Wahhabi

140 - 224
راہِ نجات: اب جب کہ اُمت کے مرض کی تشخیص ہو چکی ہے تو شاید آنے والی سطروں میں اس کا کچھ علاج مل جائے۔ ۱۔ دعوت وتبلیغ کی خدمت انجام دینے والے مخلص مسلمان جو اُمت کے بحران اور اس کی حقیقت سے قریب تر زندگی گذار رہے ہیں انہیں چاہیے کہ کچھ ذکی و ذہین اور با شعور مسلم نوجوانوں کا انتخاب کر کے علوم شریعت کی تعلیم کے لیے بہترین طریقے ان کے لیے اپنائیں اور ایسے علماء کے زیر سایہ انہیں پروان چڑھائیں جو علم و تقویٰ ، مقاصد و اُصولِ اسلام کے فہم و شعور اور بصیرت و تفقہ کے جامع ہوں اور ان کی عملی زندگی بھی ایک قابل تقلید نمونہ ہو اور تربیت نبوی کا اسلوب پوری طرح اپنایا جائے۔ ان نوجوانوں کو ایسے اہل علم کے ذریعہ تقویت پہنچائی جائے جو مختلف عصری علوم کے ماہر ہوں اور جن کے اندر اخلاص و تقویٰ بھی پایا جاتا ہو۔ یہ دونوں مل کر سفر کا صحیح رُخ متعین کر سکتے ہیں اور پائی جانے والی بیداری کی رہنمائی کر کے اسے ثابت قدم بنا سکتے ہیں جس کے بعد اُمت کو نجات و عافیت مل جائے گی اور دن بدن تباہی کے گڑھے کی طرف بڑھنے والی اس انسانیت کی قیادت کا اپنا کردار نبھا سکتے ہیں جس کی نجات اسلا م ہی میں ہے۔ ۲۔ مسلمانوں کو ایسی راہوں پر لگایا جائے جس سے اس فکری بحران کا علاج ہو سکے جو ان کے اندر موجود ہے اور جس کے نتائج اور دُور رَس اثرات کو کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں یہ بحران مسلم اداروں اور تنظیموں کے اخلاقی و عملی زوال و انحطاط ، معیارِ شعور و تربیت کیگراوٹ ، باہمی تعلقات کی خرابی ، صلحاء اُمت کی مبارک کوششوں کی مخالفت اور انہیں ناکام بنانے کی تدبیروں سے اچھی طرح واضح ہے جس کا واحد سبب یہ ہے کہ اسلام زندگیوں سے دُور ہو چکا ہے۔ اسلام کے بہترین نمائندوں اور ان اشخاص کے درمیان خلیج گہری ہو چکی ہے جن کا خیال ہے کہ اسلام ایک ایسا بادل ہے جو برستا ہے اور نہ مردہ چیزوں میں زندگی کی روح پھونکتا ہے یا چکنے پتھر پر پڑنے والا پانی ہے جو کوئی کھیتی اُگاتا
Flag Counter