Maktaba Wahhabi

199 - 224
چاہیے۔ مجتہدین کی تو یہ شانْ ہی ہے کہ ان میں اختلاف ہو۔ ان کا یہ اختلاف تعصب اور جانب داری کے بغیر بہر حال قابل قبول ہے اس پر نفاق و شقاق کی بنیاد نہیں ہونی چاہیے ، نہ اس کے سبب عداوت کی تخم ریزی ہونی چاہیے۔ تنقید کا حق یہ ہے کہ ناقد حق کو اپنے اندر محدود نہ سمجھے۔ یہ افسوس ناک بات ہے کہ نقطۂ نظر کا اختلاف شخصی عناد اور تباہ کن نفسانیت میں تبدیل ہو جائے اور رونا تو اس بات کا ہے کہ ایک چھوٹے سے مسئلے کا اختلاف اُصولِ اسلام اور دینی قواعد میں الزام تراشی تک جا پہنچے۔ بحث و مناظرے میں بے ادبی یہ ہے کہ مسلمانوں ،خصوصیت سے علماء اور مبلغین کی عزت و آبرو پر دست درازی کو جائز بنا لیا جائے۔ پھر عیب جوئی اور نکتہ چینی کی روش کو اپنا کر معمولی سی درست خیالی کے سبب کثرت ظن کی پیروی کی جانے لگے۔ بھائیو! اس کتاب میں یہ سب باتیں کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ ایسے یگانہ لوگوں اور بزرگ علماء نے اس دین کی خدمت کی ہے جو علم کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے، انہوں نے راہِ خدا میں جہاد کیا اور اللہ کے دین کی خاطر انہوں نے مصیبتیں سہیں ۔ وہ بڑے تابندہ ذہن اور پاک نفس لوگ تھے۔ان کا اثر لوگوں میں ظاہراور اقدام حق میں ان کا اخلاص نمایاں ہے ، وہ ہر قسم کی ستائش کے مستحق ہیں ۔ لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ معصوم ہیں ، اور ان کی شان میں غلو سے کام لے کر انہیں لغزشوں سے بری قرار دیا جائے اور ان کی مخالفین سے عداوت رکھی جائے۔ ہمارے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ ہم ان پر جفا کریں اور ان کی آبرو رویزی کو جائز بنا لیں اور ان کے اہم کارناموں کا انکار کر دیں اور ان کی مساعی جمیلہ کو معیوب قرار دیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عالم کی رائے اخذ و مواخذہ کے قابل ہے لیکن کسی مسلمان عالم پر جسے علم اور دعوت و تبلیغ میں دسترس حاصل ہو اور اُمت پر اس کا اچھا اثر ہو ایسے شخص پر تنقید کرنے اور کسی جنایت کار ملحد، خود غرض کافر اور حاسد مستشرق کی تردید میں بہت فرق ہے۔
Flag Counter