Maktaba Wahhabi

97 - 224
اور نئے نئے مسائل میں اپنے موقف کی توضیح کرنے لگا۔ اس لیے ضرورت پیش آئی کہ وحی الٰہی کی روشنی میں کچھ قیود و ضوابط وضع کیے جائیں اور استنباط احکام کے اسالیب و مناہج کی تعیین اور اختلاف کا جواز کن کن چیزوں میں ہے اس کی تحدید کر دی جائے۔ اللہ کا فضل و کرم ہی ہے کہ اس نے مجتہدین کے فقہی اختلاف کو دائرہ جواز میں رکھا ہے کیونکہ آیات و احادیث کے جو احکام بتلانے کے لیے شارع نے تفصیلی دلائل متعین فرمائے ہیں ان میں سے کسی کے ذریعہ حکم واقعہ کی معرفت کو فقہ کہا جاتا ہے اور فقیہ کبھی حکم شارع کو صحیح طریقے سے سمجھتا اور اس کے مطابق نتیجہ نکالتا ہے اور کبھی اس سے خطابھی ہو جاتی ہے۔ لیکن دونوں حالتوں میں اس کی صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ حکم صحیح تک پہنچنے کے لیے اپنی ساری ذہنی و عقلی صلاحیت و استعداد استعمال کرے۔ اگر حکم شارع تک نہیں پہنچ سکا جب بھی اس کی حقیقت و غایت سے قریب تر وہ پہنچ ہی جائے گا اور ایسے حال میں دو شرطوں کے ساتھ یہ اختلاف جائز بھی ہو گا: ۱۔ ہر فریق کے پاس قابل حجت دلیل ہو اور اگر کوئی ایسی دلیل نہ ہو تو وہ بالکل ساقط الاعتبار ہو گا۔ ۲۔ مسلک مخالف تسلیم کر لینے سے محال یا باطل کی راہ پر نہ لگ جائے۔ اگر ایسا ہو تو ابتداء ہی وہ باطل ہو جائے گا اور کسی حال میں کسی کو اس کے ذکر کا بھی حق نہیں ۔ ان دو اُمور سے ’’اختلاف ‘‘ اور ’’خلاف ‘‘ کا فرق واضح ہے۔ مذکورہ بالا دونوں شرطیں جس میں پائی جائیں وہ اختلاف ہے جو فکر و اجتہاد کا مظہر ہے اور اکثر اس کے اسباب معقول ہوا کرتے ہیں … جس میں ایک یا دونوں شرطیں نہ پائی جائیں وہ خلاف ہے جو عناد و نفسانیت کا مظہر ہے اور اس میں کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی۔ عہد فقہاء میں اسبابِ اختلاف وہ فقہاء جن کے مسالک پر اُمت کا اجماع ہے۔ انہوں نے سابقہ دونوں شرطوں کی ہمیشہ
Flag Counter