Maktaba Wahhabi

132 - 224
کہ امام کو مسالک محققین و ماہرین کی اتباع کا حکم ہے۔ [1] امام الحرمین کے اس قول اور اجماعِ محققین کے دعویٰ پر ابن الصلاح ( م ۶۴۳ھ) نے ائمہ اربعہ کی تقلید کے وجوب کا دعویٰ کیا ہے کیونکہ ان کے مسالک منضبط اور مدون ہیں اور ان کے اُصول و شرائط بھی احاطۂ تحریر میں آچکے ہیں اور یہ باتیں صحابہ و تابعین و غیرہم کے مسالک میں نہیں پائی جاتی ہیں[2] اس کے بعد متاخرین یہی رائے نقل کرتے رہے۔[3] یہیں سے کتاب و سنت کے علوم و فنون سے غفلت کا آغاز ہوا۔ اقوال و مسالک کی نقل ، ان کے احکام و دفاع اور ان سے تفریع و تخریج پر لوگ قناعت کرنے لگے۔ زوال و انحطاط جاری رہا اختلافات کی شدت وسعت اختیار کرتی گئی اور اس کے بعد تقلید خالص پر صدیاں گذر گئیں جس سے فکر کی تحریک رُک گئی ۔ اجتہاد کا درخت خشک ہو گیا اور فتنہ و جہالت میں اضافہ ہو تا گیا۔ لوگوں کی نظر میں فقیہ عالم وہ ٹھہرا جو فقہاء کے بہت سے اقوال و آراء ذہن میں محفوظ رکھے۔ خواہ اسے قوی اور ضعیف مسئلہ کا علم ہو یا نہ ہو اور وہ شخص محدث ہو گیا جو صحیح و ضعیف احادیث کا حافظ ہو۔ معاملہ یہیں پر رُک نہیں گیا بلکہ اس سے بھی زیادہ مائل بہ انحطاط ہو گیا۔ گویا عالم اسلام سے آفتاب علم ہی غروب ہو گیا۔ عقول و افکار بے برگ و بار ہو گئے۔ بدعتوں کا بازار گرم ہوا اور انحراف و بے راہ روی کا سامان بکنے لگے۔ خرافات کی مختلف شکلیں مسلمانوں میں پھیل گئیں جس نے حملہ آوروں کا میدان صاف کر دیا کہ وہ اسلامی بلاد و امصار کو ہضم کر کے مسلم تہذیب و تمدن کو ملیا میٹ کر دیں ۔ ماضی قریب کے مسلمانوں کا طرزِ فکر: فکری جمود و تقلید کی آغوش میں محوِ استراحت ہو کر مسلمان ماضی کے سنہرے خواب دیکھتے
Flag Counter