Maktaba Wahhabi

133 - 224
رہے۔ اولو الامر اور مصادر تشریع کی باہمی آویزش سے حیران و پریشان ہو کر مختلف راہوں پر لوگ چلنے لگے اور اہل علم ان سے غافل ہو کر اپنی مصروفیت اور اپنی رائے ہی کو سب سے بہتر اور صحیح سمجھتے رہے … اس اُمت کی روشن تاریخ سے باخبر شخص کو یہ باور کرنا مشکل ہو گیا کہ جمود و تعطل کے یہ شکار اخلاف انہیں اسلاف کے وارث ہیں جو رواں دواں اور روشن و تابندہ زندگی کے مالک تھے۔ یورپ نے زندگی کے میدان میں جب ایک نئی کروٹ لی اور مسلمانوں کا یہ حال دیکھا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ اس اُمت کی حقیقی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں ، اعتقاد و ایمان کی چنگاری بجھ رہی ہے، یقین و اذعان کی کیفیت رخصت ہو رہی ہے، اخلاق و کردار میں کجی آچکی ہے، استقامت و پامردی معدوم ہے ،فکر و اجتہاد اورتفقہ کا فقدان ہے ، بدعت رائج ہو رہی ہے ، سنت سے لوگ غافل ہیں اور بیداری و ہوشیاری کا کہیں دُور دُور تک کوئی پتہ نہیں ۔ گویا یہ اُمت ہی بدل چکی ہے ۔ یہ حالت دیکھ کر گھات میں لگی ہوئی مغربی اقوال نے موقعہ غنیمت جانا اور مسلم حکومتوں پر قبضہ جما کر ان کی زمام اقتدار خود سنبھال لی اور جو کچھ باقی بچ گیا تھا اسے بھی ختم کر ڈالا اور پھر مسلمانوں کی ذلت و نکبت کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے مسائل و معاملات کی کلید ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہمارے انجام کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہم اپنی ہی پیدا کردہ مشکلات کا ان کے پاس حل ڈھونڈنے جاتے ہیں ۔ اس درمیان مسلمانوں نے کوششیں بھی کیں کہ اپنی بچی کھچی رمق کی حفاظت کے لیے اسے تاریکی سے نکالیں اور اپنی لغزشوں سے سنبھل جائیں لیکن ان کی ہر کوشش کو سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ انہوں نے راہِ خداوندی اور جادۂ حق سے ہٹ کر اپنے قدم اُٹھائے اور یہ کوشش چونکہ غیروں کی تقلید اور فاتح و قابض اقوام کی اتباع کے راستے سے آگے بڑھ رہی تھی اس لیے ناکامی کے ساتھ معاملہ اور زیادہ خراب ہو گیا۔ جس سے متاثر ہو کر اُمت کی نئی نسل نے کوئی قابل اطمینان حل ڈھونڈنا اورزخم کا شفا بخش مرہم تلاش کرنا شروع کیا۔ تلاش و جستجو کے بعد فرزندانِ ملت کو صرف ایک علاج سمجھ میں آیا ان آخر ہذہ الامۃ لن یصلح الا
Flag Counter