Maktaba Wahhabi

141 - 224
ہے نہ کوئی سبزہ۔ کیونکہ دل سخت ہو کر زنگ آلود ہو چکے ہیں اور آنکھیں بند ہو کر امیتاز خیر و شر سے قاصر ہو چکی ہیں ۔ مختلف تعلیمی ادارے اُمت کو معتدل مسلم انسان پیش کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔مسلم ممالک میں مغربی طرزپر قائم شدہ یونیورسٹیاں اپنا یہ فریضہ نہیں سمجھتیں کہ تمام شعبۂ علوم میں ایسا مسلم صاحب علم تیار کرنا ہے جو سارے علوم و فنون کے زینے خود بخود طے کر سکے بلکہ ان کا مطمح نظر ہوتا ہے کہ ایسے طلبہ تیار کیے جائیں جو مغربی علوم و فنون کے دلدادہ ہوں اور جلد از جلد ان کی زندگیاں مسلم عقائد اور ان کے مقاصد و اہداف سے دُور جا پڑیں یہی وجہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں سے ایسی نسل نکلی جس کا رابطہ اُمت سے کمزور اور اس کے تعلقات اور افکار اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اور ان کے علم سے اُمت کی کوئی خدمت نہیں ہو پاتی ۔ وہ تعلیمی ادارے جن پر دینی و شرعی رنگ غالب ہے جیسے جامعہ ازہر وغیرہ یا ان کے کالج و اسکول وغیرہ۔ انہوں نے محدود پیمانے پر علوم شرعیہ کے بعض اچھے ماہر علماء پیدا کیے ہیں لیکن ایسے جید علماء نہیں پیش کر سکے جو فکر و قیادت اور احیاء و تجدید کے فرائض انہیں کالجوں کے ذریعہ انجام دے سکیں اور موجودہ خلیجوں کا مقابلہ کر کے ان پر غالب آسکیں اسی لیے فکر اسلامی کا دائرہ تنگ ہوتا گیا اور مسلمانوں کی زندگی میں اس کے انداز فکر کی گرفت مضبوط نہ رہ سکی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دل اور عقلیں غیر اسلامی افکار کو بھی قبول کرنے لگیں اور مسلمان اپنی سیاست و اقتصادات اور معاشرتی و اجتماعی تنظیم و اتحاد جیسے اہم مسائل حل کرنے میں ناکام رہے اور دوسروں کے نظریات و خیالات کی اُلٹی سیدھی نقلیں کرنے لگے اور فرزندانِ اُمت کے اختلاف اور باہمی رسّہ کشی نے اقدار و روایات کی ساری زنجیریں توڑ ڈالیں ۔ یہ باہمی تصادرم مغرب سے متاثر اور اس کی ثقافت کے فریفتہ گروہ کے حق میں اکثر مفید ہوتا ہے مقام افسوس ہے کہ یہ مومن ہراول دستہ اپنی صفوں میں اتحاد لانے اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے خود ہی اختلافی مسائل اور جھگڑوں کا شکار ہو گیا کیونکہ اکثر طلبہ کے ذہن میں جزئیات و کلیات اور مقاصد و مبادی ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہو گئے ہیں ۔
Flag Counter