Maktaba Wahhabi

211 - 224
وہ اجتہاد کی حد سے آگے نہیں بڑھا، اور دین اور صحت عقیدہ میں الزام کی حد تک نہیں پہنچا۔ مشہور اموی حاکم مروان بن حکم کہتا ہے کہ: ’’میں نے فاتحین میں علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی کو معزز نہیں دیکھا، ہم تو جنگ جمل کے روز شکست کھا کر پیچھے بھاگ رہے تھے اور ادھر ایک منادی اعلان کر رہا تھا کہ : زخمیوں کو تہ تیغ نہ کیا جائے۔‘‘ ایک اور قصہ سنو: جنگ جمل میں جو حضرت علی اور طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ہوئی تھی، جنگ کے بعد عمران بن طلحہ حضرت علی کے پاس آتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ انہیں مبارک باد دیتے ہیں اور اپنے قریب کرلیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہارے والد طلحہ کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جن کے بارے میں اس کا ارشاد ہے: ﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ﴾ (الحجر:۴۷) ’’ہم ان کے سینوں کے بغض و حسد کو ختم کردیں گے، وہ مسند پر آمنے سامنے بھائی بھائی بن کر بیٹھے ہوں گے۔‘‘ پھر ان سے طلحہ کے اہل بیت کے بارے میں فرداً فرداً اور ان کے غلاموں اور امہات الاولاد (لونڈیوں ) کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ بھتیجے بتاؤ کہ فلاں کی حالت کیا ہے اور فلانی عورت کی حالت کیسی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ حاضرین میں سے جنہیں صحبت نبوی کا شرف حاصل نہیں تھا اور محمدی تربیت کے معانی نہیں سمجھتے تھے تعجب کرنے لگے۔ بلکہ ان حاضرین میں کنارے بیٹھے دو شخص کہنے لگے: اللہ اس سے زیادہ عادل ہے۔ کل تک آپ ان سے لڑتے رہے اور جنت میں بھائی بھائی ہوجاؤ گے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر بھڑک جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں : تم دونوں اٹھو اور کسی دور و دراز علاقے میں جاکر رہو، تم میری مجلس میں رہنے کے لائق نہیں ہو۔ اگر میں اور طلحہ
Flag Counter