Maktaba Wahhabi

209 - 224
پڑھایا ہے ویسے ہی پڑھو، کیونکہ وہ اسلام کا ایسا مضبوط قلعہ تھے جس میں لوگ داخل ہو کر نکلتے نہیں تھے ، لیکن جب ان کی شہادت ہو گئی تو قلعہ میں شگاف پڑ گیا۔ اسی طرح ایک دن کا واقعہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آرہے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے، جب انہیں آتے دیکھا تو کہنے لگے: ’’ کنیف ملیٔ علما أو فقھا ‘‘یعنی آپ علم و فقہ کا پٹارہ ( یعنی لبریز )ہیں ۔ اور ایک روایت میں ہے: (( کنیف ملی ٔ علما آثرت بہ أھل القادسیۃ۔)) ’’ یعنی آپ علم کا پٹارہ ہیں ۔ میں نے نہیں قادسیہ ( کے مجاہدین ) کے حوالہ کر دیا ہے۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ نظریہ تھا۔ اور چند مسائل میں اختلاف نے ان کے آپس کے احترام و محبت میں اضافہ ہی کیا تھا۔ ہمارے لیے ممکن ہے کہ ان واقعات سے ان تمام تر ایسے آداب کا استنباط کریں جو اختلافی معاملات کے حل کے لیے مشعلِ راہ ہوں ۔ عبداللہ بن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ م حضرت ابو بکر صدیق اور دیگر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ مکے مانند عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب بھی یہی تھا کہ میراث میں باپ ہی کے مانند داداد بھی سبھی بھائی اور بہنوں کو ساقط کر دیتا ہے۔ اور حضرت علی ، عبداللہ بن مسعود اور کچھ دیگر صحابہ کے مانند زید بن ثابت رضی اللہ عنہ م اجمعین کا مذہب یہ تھا کہ بھائی ، دادا کے ساتھ وارث ہوتے ہیں اور وہ اس کے سبب محجوب نہیں ہوتے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک روز کہا کہ ’’تعجب ہے ، زید بن ثابت کو اللہ کا خوف نہیں ، بیٹے کے بیٹے یعنی پوتے کو بیٹا بناتے ہیں اور باپ کے باپ یعنی دادا کو باپ نہیں بناتے۔‘‘ بلکہ ایک روز ابن عباس کہنے لگے کہ ’’ میں چاہتا ہوں کہ میں اور وہ لوگ جو میراث کے اس مسئلے میں میری مخالفت کرتے ہیں یکجا ہوں اور اپنا ہاتھ حجر اسود پر رکھ کر مباہلہ کریں اور
Flag Counter