Maktaba Wahhabi

207 - 224
عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں اس مسئلے کے اندر حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے فیصلے کو توڑ دیا، اور انہیں ان کے گھر والوں کو واپس کر دیا۔لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر آپ نے تنقید نہیں کی، کیونکہ اجتہادی مسائل میں دونوں کا اپنا اپنا اجتہاد تھا۔ مفتوحہ اراضی کی تقسیم کے بارے میں دونوں میں اختلاف رہا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مفتوحہ اراضی تقسیم کی گئیں ، اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تقسیم نہیں ہوئیں ۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت اپنے بعد کے لیے جانشین متعین کیا، اور حضرت عمر نے جانشین نہیں بنایا، بلکہ معاملہ شوریٰ کے سپرد کر دیا، اور یہ نقطہ نظر کا اختلاف ہے جیسا کہ معلوم ہے۔ سیّدناعمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بھائیو! آپ کو معلوم ہے کہ عبداللہ بن مسعود اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کتاب اللہ کے سب سے زیادہ قاری اور سنت رسول کے سب سے بڑے عالم تھے، لوگ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بکثرت رہنے کی وجہ سے اہل بیت میں شمار کرتے تھے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کچھ زمانے تک ہم ابن مسعود اور ان کی ماں کو اہل بیت میں سمجھتے تھے کیونکہ وہ بکثرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور رہتے تھے۔ ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو اس آنے والے شخص سے زیادہ قرآن کا جاننے والا چھوڑا ہو۔ تو ابو موسیٰ اشعری نے کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے جب ہم سب غائب ہوتے تھے، اور انہیں اجازت ہوتی تھی جب کہ ہمیں روک دیا جاتا تھا۔ دوسری طرف سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اپنی فقہ اور جلالت شان میں معروف ہیں ۔ سیّدناعبداللہ بن مسعود کچھ اعمال میں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے لوگوں میں سے ایک تھے۔ بہت سے اجتہادات میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی ، یہاں تک کہ فقہ اسلامی کے مؤرخین نے انہیں صحابہ کرام میں سیّدناعمر سے سب سے زیادہ متاثر مانا ہے۔ اور اکثر دونوں
Flag Counter