Maktaba Wahhabi

66 - 280
والی نہیں ہے۔اور یہاں پر لفظ ’’مداد ‘‘سے مراد کثرت بھی ہے۔ تو جملے کا معنی یوں ہوگا کہ اس کے کلمات کی تعداد کے برابر۔ اور اللہ تعالیٰ کے کلمات کی گنتی یا شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔یہاں پر مقصود اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں مبالغہ اور کثرت ہے۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ ’’اللمعات‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یہ دعا ( اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنامیں ) مبالغہ اور کثرت ہے۔ گویاکہ وہ اسی مقدار میں کلام کر رہاہے۔ تو اب اس طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں کہ انسان کہے: ’’ میں اس مقدار میں تیری تسبیح بیان کرتاہوں ،حالانکہ وہ تو ایک ہی بار اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتا ہے۔‘‘ علامہ سندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اگر آپ کہیں کہ اس تسبیح کو مذکورہ عدد میں مقید کرنا کیسے درست ہوگا ؛ حالانکہ تسبیح سے تو مراد ہر اس چیز سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ؛ کیونکہ وہ اپنی ذات میں اکیلا ہے ؛ اس میں متعدد کا ہونا ممکن نہیں ۔اور متکلم کے منہ سے ان الفاظ کے نکلنے کے اعتبار سے بھی ایسا ممکن نہیں ، کیونکہ وہ اس پر قدرت نہیں رکھتا؛ اور اگر فرض کرلیں کہ وہ اس پر قدرت بھی رکھتا ہے تو پھر بھی تسبیح کو اس تعداد کے ساتھ مقید کرنا صرف اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جب وہ اتنی تعداد میں تسبیح بیان کرے یا اتنی بار تسبیح کہنے کا عزم و ارادہ کرے۔جب کہ صرف ایک بار سبحان اللہ کہنے سے اتنی بڑی تعداد میں تو تسبیح نہیں کہی جاسکتی؟ ‘‘ (آپ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں : ’’ یہ قید ذات اقدس کے استحقاق کے لحاظ سے لگائی گئی ہے کہ متکلم سے اس قدر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح بیان ہونی چاہیے۔حاصل کلام یہ ہے کہ یہ تعداد متکلم کے کلام کے لحاظ سے ہے ؛ مگر یہ کلام اس کے منہ سے کلام کے نکلنے کے لحاظ
Flag Counter