اور ان کے بعد کے اہل علم جنھوں نے ان کی جم کر تعریف کی ہے ظلم و زیادتی میں ان کاتعاون کیا ہے اور سب غلطی پر ہیں۔[1] اور یہ صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے علمائے ربانیین پر بہت بڑی تہمت ہوگی۔ جو حکومت سے متعلق معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت اور رعایا کے حق میں آپ کے مشہور حلم و بردباری، عفو و درگزر اور حسنِ سیاست سے واقف ہوگا اسے بآسانی معلوم ہوجائے گا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ حلم وبردباری میں ضرب المثل اور آنے والی نسلوں کے قدوہ و نمونہ تھے، ذیل میں بعض مثالیں پیش ہیں: ۱۔ عبدالملک بن مروان کے پاس معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو انھوں نے کہا: حلم و بردباری، قوتِ برداشت اور عالی ظرفی میں میں نے ان کے جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔[2] ۲۔ قبیصہ بن جابر کا قول ہے: میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ بردبار، ان سے بڑا سردار، ان سے زیادہ باوقار، نرم اور بھلائی میں آگے رہنے والا نہیں دیکھا۔[3] ۳۔ ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو بہت برا بھلا اور سخت و سست کہا۔ ان سے کہا گیا: کاش آپ اس پر چڑھ بیٹھتے تو انھوں نے کہا: میں اس بات پر اللہ سے شرماتا ہوں کہ رعایا میں سے کسی کی غلطی پر میری بردباری جواب دے جائے۔[4] ۴۔ ایک شخص نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے تم سے زیادہ خسیس اور کمینہ نہیں دیکھا، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں اس طرح کے سلوک کے ساتھ لوگوں سے کون پیش آئے گا۔[5] معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین ہیں، احمق قسم کے لوگ انھیں گالی گلوچ دیتے ہیں، پھر بھی آپ ان کے ساتھ حلم وبردباری سے پیش آتے ہیں تو کیا اس کے بعد بھی یہ بات عقل میں سماتی ہے کہ وہ خلیفۂ راشد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر منبروں سے لعنت بھیجنے کا حکم دیں گے، اور تمام علاقوں کے گورنروں کو اس کا حکم دیں گے، اوریہ لعنت و ملامت جاری رہے گی تاآنکہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ آکر اسے ختم کریں ؟ ہر صاحب عقل و فہم اس بارے میں فیصلہ کرسکتا ہے۔[6] اس افتراء پردازی اور تہمت کی دلیل میں شیعہ صحیح مسلم کی جو روایت پیش کرتے ہیں اس میں ان کے زعم باطل کی کوئی دلیل نہیں: ((فَعَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: أَمَرَ مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِیْ سُفْیَانَ |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |