Maktaba Wahhabi

387 - 548
’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کے مابین موازنہ کرتے تھے تو ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے تھے۔‘‘ اس سلسلے کی حدیثیں بکثرت اور مشہور و معروف ہیں۔[1] صحیح روایتوں کے مطابق حقیقت واقعہ یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا تھا کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو انھیں سونپ دیں اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اس کو اہمیت نہیں دی۔ ج: قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی جانب معاویہ رضی اللہ عنہ کا خط اور اس میں ان کا اس جانب اشارہ کہ علی رضی اللہ عنہ قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ میں فریق تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے ایسا اشارہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ اس سلسلے میں علی رضی اللہ عنہ کی براء ت (جیسا کہ گزر چکا ہے) بالکل واضح تھی، معاویہ رضی اللہ عنہ اس سے ناواقف نہیں تھے کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ ان کے لیے اسے ثابت کرتے ہیں، محمد بن سیرین رحمہ اللہ (جو کبار تابعین میں سے تھے اور انھیں وہ زمانہ ملا تھا) کہتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ قتل کردیے گئے، اور میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو ان کے قتل میں علی رضی اللہ عنہ کو متہم کرتا ہو۔[2] نیز وہی کہتے ہیں: جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ہوا گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا، انھی میں عبداللہ بن عمر اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما بھی گردن میں تلوار لٹکائے موجود تھے، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں سختی سے حکم دے رکھا تھا کہ وہ لڑائی نہ کریں۔[3] ابن ابی شیبہ نے صحیح سند سے محمد بن حنفیہ کی روایت نقل کی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: میدان، پہاڑ، خشکی اور تری ہر جگہ اللہ تعالیٰ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ملعون قرار دے۔[4]اس معنی کے صحیح نصوص بہت سارے ہیں [5] جو بالتاکید ثابت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ کی ناپسندیدگی مشہور تھی۔[6] د: معاویہ رضی اللہ عنہ کا قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ میں انصار کو متہم کرنا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ اتہام درست نہیں ہے اس لیے کہ انھیں اچھی طرح معلوم تھاکہ دفاع کرنے والے انصار تھے، چنانچہ ابن سعد نے صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جب کہ وہ
Flag Counter