’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر قرآن کریم کے ذریعہ سے خطبہ دیا کرتے تھے۔‘‘[1] اسی بناء پر حسن بن علی رضی اللہ عنہما قرآنی آیات کے ذریعہ سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور انھیں ان آیات کو سناتے تھے، اچھی آواز، خشوع و خضوع، تدبر، تذکیر اور اتقان کے ساتھ پڑھنے کا جو نبوی طریقہ تھا وہی طریقہ آپ بھی اپناتے تھے، نتیجتاً دل لرز جاتے، آنکھیں اشکبار ہوجاتیں، سورۂ ابراہیم جسے آپ نے منبر پر پورا پڑھا تھا، پر غور و خوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اہم موضوعات درج ذیل ہیں: ٭ بنیادی عقائد کو ثابت کرنا جیسے اللہ پر،ر سولوں پر، قیامت پر اور حساب و کتاب پر ایمان لانا، توحید کو ثابت کرنا، آسمانوں اور زمین کے خالق معبود برحق کے اوصاف بیان کرنا، نزول قرآن کا مقصد یعنی لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی جانب لے جانے کو بیان کرنا، گمراہی سے بچانے، اللہ کی عبادت، فضائل اور بنیادی عقائد میں رسولوں کی دعوت کا متحد ہونا۔ ٭ وعدہ اور وعید: کافروں کی مذمت اور کفر کے باعث انھیں سخت عذاب کی وعید اور دھمکی، مومنوں کو ان کے اچھے اعمال پر جنت کا وعدہ (آیت ۲، ۲۳، ۲۸ سے ۳۱ تک) ٭ افہام و تفہیم:… آسانی کے لیے رسولوں کو انھی کی قوموں کی زبان میں بھیجنے کے بارے میں گفتگو۔ (آیت ۴۱) ٭ سابقہ رسولوں کے ساتھ ان کی قوموں کے برتاؤ کو بیان کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا، اور ان کے اوپر آئے ہوئے عذابوں کو بیان کرکے نصیحت کرنا۔ (آیات ۹ تا ۱۸) ٭ موسیٰ علیہ السلام کی اپنے قوم سے گفتگو اور انھیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا۔ (آیات ۵ تا ۸) ٭ تعمیر کعبہ کے بعد ابراہیم علیہ السلام کی اہل مکہ کے لیے امن و امان، رزق، کعبہ کی جانب دلوں کے میلان، اپنے آپ کو اور اپنی آل و اولاد کو کی عبادت سے بچانے، بڑھاپے میں اولاد عطا کرنے پر رب کا شکر ادا کرنے، انھیں اور ان کی آل و اولاد کو نماز قائم کرنے کی توفیق دینے، اپنے، اپنے والدین اور تمام مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرنے سے متعلق دعائیں۔ (آیات ۳۵ تا ۴۱) ٭ آخرت میں جہنمیوں کے مابین گفتگو کا ایک منظر (آیات ۱۹ تا ۲۳ ) ٭ حق و ایمان کے کلمے اور باطل و گمراہی کے کلمے کی بہترین درخت اور خراب درخت سے مثال دینا۔ (آیات ۲۴ تا ۲۷) |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |