کہانیاں سنائے، اس کتاب سے علم و تاریخ مقصود نہیں ہے۔ اصفہانی خود عربوں اور مسلمانوں کے معاشرے کو پسند نہیں کرتا تھا، پیدائشی اور فکری طور پر اس کا میلان دشمنان اسلام، باطنیوں اور رافضیوں وغیرہ کی جانب تھا، اس کا یہ طرز عمل ایک سخت قسم کی جنگ تھی جو شعوبیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چھیڑ رکھی تھی، تاکہ ان کے معاشرے کو تباہ کرنے کے لیے پہلے ان کی فکر کو تباہ کردیا جائے، مغربیت کے علمبردار اور درآمدہ مغرب کی ادبی تنقید کے قائلین کی یہ کوشش رہی ہے کہ اس کتاب کو خوب شہرت اور رواج دیں اور ادبی تحریروں کے لیے اسے ایک قابل اعتبار مرجع اور اسلامی معاشرے کی تصویر کشی کا اہم ذریعہ بنا دیں۔ ڈاکٹر طٰہٰ حسین (جزاہ اللّٰہ بما ہو أہلہ) ان میں پیش پیش رہے، چنانچہ انھوں نے ’’الأغانی‘‘ کے قصوں پر اعتماد کرتے ہوئے مسلمانوں کے معاشرے اور ان کی تاریخ سے متعلق بہت سارے غلط حکم صادر کیے تاکہ ان کے ذریعہ سے اس مغربیت کے پرچار میں اپنا کردار ادا کرسکیں، جو اس صدی کی تیسری دہائی میں زور شعور سے پھیل رہی تھی۔[1] نیز (انور جندی) کہتے ہیں: اصفہانی کی سیرت کا اگر تھوڑا سا بھی جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ شعوبی تھا، حصولِ مقصد کے لیے حیلہ سازی و مبالغہ آرائی میں معروف تھا، بہت سارے باحثین اور مؤرخین نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مؤرخ نہیں تھا، اور اس کی کتاب تاریخی حیثیت کی حامل نہیں ہے، بلکہ وہ بازاروں اور کتابوں میں موجود گانوں اور لوگوں کے قصے کہانیوں کو جمع کرنے والا تھا، ایسا اس نے صرف اس لیے کیا کہ ان چیزوں کو اس اسلامی معاشرے کا ایک حصہ قرار دے دے جو بہت سارے سیاسی، اجتماعی اور فقہی پہلوؤں سے بھرپور معاشرہ تھا، بہت سے معاصرین و مورخین نے اس کے انحراف کی شہادت دی ہے، مورخ یوسفی نے ایسی شہادت دی ہے جو علما کی نظر میں موثوق و معتبر مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں: ابوالفرج بہت جھوٹا ہے، وہ اوراق بیچنے والوں کے بازار میں جاتا، جہاں کتابوں سے بھرپور کچھ دکانیں ہوتیں، وہاں سے بہت ساری چیزیں خرید کر گھر لاتا، پھر انھی سے اپنی روایتوں کو تیار کرتا۔[2] اس کے بارے میں صاحب ’’معجم الأدباء‘‘ کہتے ہیں: شراب نوشی، امرد پرستی، عورتوں کے اوصاف بیان کرنے میں اس کا معاملہ اپنے ہم عصر اور اپنے سے پہلے کے ادباء و شعراء جیسا تھا، وہ شراب فروش تاجروں کے پاس جاتا، جن کی اکثریت یہود و نصاریٰ، صابیوں اور مجوسیوں کی تھی، شراب نوشی میں معروف تھا، جسم اور کپڑوں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتا تھا۔[3] |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |