Maktaba Wahhabi

243 - 548
پانچ، بعض کے نزدیک سات، بعض کے نزدیک آٹھ، بعض کے نزدیک بارہ، اور بعض کے نزدیک تیرہ ہیں۔[1] عجیب وغریب بات یہ ہے کہ نظریۂ امامت کے قائلین کئی فرقوں میں بٹ گئے، ہر فرقہ اپنے امام کے بارے میں ایسی روایتیں نقل کرتاہے جو دوسرے فرقے کے بالکل متضاد و متناقض ہیں، پھر انھیں علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب کرتے ہیں، شیعوں کی کتابوں میں یہ اختلاف و تناقض منقول ہے، چاہے وہ اسماعیلیہ فرقے کی کتابیں ہوں جیسے تاشی اکبر کی ’’مسائل الإمامۃ‘‘ اور ابوحاتم رازی کی ’’الزینۃ‘‘ یا اثنا عشریہ فرقے کی کتابیں ہوں، جیسے اشعری کی ’’المقالات و الفرق‘‘ اور نوبختی کی ’’فرق الشیعۃ‘‘ ان کے نزدیک امامت کا مسئلہ کوئی ایسا فرعی مسئلہ نہیں ہے جس میں اختلاف معمولی قسم کا ہو، بلکہ وہ دین کی بنیاد و جڑ ہے، جوان کے امام پر ایمان نہ لائے وہ دین سے خارج ہے، اور اسی بنا پر ان میں سے بعض بعض کو کافر و ملعون قرار دیتے ہیں۔[2] فرقہ اثنا عشریہ کی رائے بعد میں اس بات پر ٹھہر گئی کہ امامت بارہ اماموں میں محصور ہے، جب کہ عہد نبوی و عہد خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم میں اور خاندان نبوت بنوہاشم میں کوئی بھی بارہ اماموں کی امامت کا قائل نہ تھا۔[3] بارہ اماموں کے عقیدہ کی ابتداء حسن عسکری کی وفات کے بعد ہوئی۔[4] متعینہ عدد میں اماموں کو محصور کرنے کا عقیدہ سراسر فاسد و باطل ہے، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد اس سے بری ہے، شیعوں کی معتمد کتاب ’’نہج البلاغۃ‘‘ میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں: ’’مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کے لیے) میرے علاوہ کسی اور کو ڈھونڈ لو، ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور رنگ ہیں، جسے نہ قلوب برداشت کرسکتے ہیں، اور نہ ہی عقلیں اسے مان سکتی ہیں،(دیکھو) افق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، راستہ پہچاننے میں نہیں آتا، تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میں تمھاری اس خواہش کو مان لوں تو تمھیں اس راستے پر لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے، اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی سرزنش پر کان نہیں دھروں گا۔ اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو میں بھی ویسا ہی ہوں، اور ہوسکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں، اور میرا (تمھارے دنیوی مفاد کے لیے) امیر ہونے سے وزیر ہونا بہتر ہے۔‘‘[5]
Flag Counter