Maktaba Wahhabi

239 - 548
آج کیسے ہیں ؟ آپ نے کہا: بحمد اللہ ٹھیک ہیں، عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کی قسم تم تین دن کے بعد دوسرے کے تابع ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاؤ گے، اللہ کی قسم مجھے تو ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے شفا یاب نہیں ہو سکیں گے، موت کے وقت بنوعبدالمطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے، اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے، اور آپ سے پوچھنا چاہیے کہ ہمارے بعد خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا اور اگر کوئی دوسرا مستحق ہوگا تو وہ بھی معلوم ہوجائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے متعلق اپنے خلیفہ کو ممکن ہے کچھ وصیتیں کردیں، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق کچھ پوچھا اور آپ نے انکار کردیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کردیں گے، میں تو اللہ کی قسم ہرگز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھوں گا۔[1] آپ کے مذکورہ قول میں اس بات کی شہادت موجود ہے کہ صحابہ کرام فرامینِ نبویہ کو لازماً نافذ کرتے تھے، اگر آپ کی کوئی وصیت ہوتی تو کوئی اس سے پیچھے نہ ہٹتا، اور سقیفۂ بنو ساعدہ میں انصار پوری آزادی اور دلیری سے ’’منا امیر و منکم امیر‘‘[2]نہ کہتے، جس کے لیے وصیت ہوتی اس کے لیے بیعت کرلیتے، یا کم از کم ان میں سے بعض اس کا تذکرہ کرتے۔ اور اگر وصیت ہوتی تو علی رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ سے یوں کہتے: ’’ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے پوچھیں کہ خلافت کن لوگوں میں ہوگی جب کہ آپ نے میرے لیے خلافت کی وصیت کردی ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن وفات پاگئے۔ جب اس سلسلے میں کوئی صحیح چیز نہیں ملی تو اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ تنصیص کا دعویٰ بے بنیاد ہے، اور علی رضی اللہ عنہ کی تنصیص کے سلسلے میں جو کچھ بیان کرتے ہیں، وہ سب علی رضی اللہ عنہ کی اس صریح نص کے مخالف ہونے کے باعث مردود و ناقابل قبول ہے۔ ان کی تمام سمعی دلیلیں یا تو دعویٰ پر دلالت نہیں کرتیں یا دلالت کرتی ہیں لیکن وہ موضوع و من گھڑت ہیں۔ [3] ۳۔ (ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں) علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لوگوں کے
Flag Counter