Maktaba Wahhabi

77 - 154
بلند مقام کے باوجود، ان (یعنی علی رضی اللہ عنہ ) کی، بیٹی کوخفا کرنے کی بنا پر، سرزنش نہ فرمائی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے، کہ ان [یعنی دامادوں] کے ساتھ باہمی محبت کی بقا کی خاطر ان کے ساتھ نرمی کرنا اور سرزنش نہ کرنا مستحب ہے، کیونکہ سرزنش کی بنا پر عام طور پر دلوں میں کینہ پیدا ہوتا ہے، ہاں جو لوگ اس بات سے منزہ ہوں، ان کا معاملہ الگ ہے۔‘‘] ایک دوسرے مقام پر حافظ ابن حجر اس قصّے کے متعلق لکھتے ہیں: ’’وَفِیْہِ مُدَارَۃُ الصِہْرِ وَتَسْکِیْنُہُ مِنْ غَضَبِہِ۔‘‘‘([1]) [’’اس میں داماد کی عزت و تکریم اور اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنا [ثابت ہوتا] ہے۔‘‘] انتہائی دکھ کی بات ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے برعکس بیٹیوں کے بعض نادان خیر خواہ باپ ایسے موقعوں پر آستینیں چڑھا کر بیچ میں کود پڑتے ہیں اور کچھ منہ زور، لیکن بزعم خود بہت زیادہ عقل و دانش والی مائیں جلتی پر تیل ڈال کر بیٹیوں کے گھروں کو برباد کردیتی ہیں۔ ھ: داماد کو چھوڑتے وقت بیٹی کو بھیجنے کی شرط لگانا: غزوۂ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر ابوالعاص مکہ کے دیگر قریشیوں کے ہمراہ مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہوئے۔ اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا ان کی زوجیت میں مکہ مکرمہ میں تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رہا کرتے وقت ان کے ساتھ یہ شرط طے کی، کہ وہ مکہ مکرمہ پہنچ کر ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے دیں گے۔
Flag Counter