سے بلند کرے (آمین)اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے منکرین حدیث کے اعتراض کیلئے کچھ چھوڑا ہی نہیں یعنی بی بی عائشہ رضي الله عنها کے کم عمری کے نکاح کو اولاً قرآن سے ثابت کیاپھر حدیث ذکر کی ،اب اگر منکرین حدیث اس حدیث کا انکار کرتے ہیں تومنکرین حدیث کے اس دعویٰ کے قلعی کھل جاتی ہے کہ وہ قرآن پر عمل کرتے ہیں۔ نابالغ لڑکی سے جماع جائز ہے : معلوم ہوناچاہیے کہ سورۃ طلاق کی زیر بحث آیت کی روسے مذکور ہ نابالغ لڑکی سے صرف نکاح پڑھنا ہی نہیں بلکہ جماع یعنی ہم بستری کرنابھی جائز ہے یعنی اس آیت کریمہ میں ان مطلقہ لڑکیوں کی عدت کاتذکرہ ہے جو ابھی نابالغ ہوں اوران نابالغ لرؑکیوں سے انکے خاوند نکاح کے بعد جماع یعنی مباشرت بھی کرچکے ہوں اورپھر کسی سبب انھیں طلاق دے رہے ہوں کیونکہ وہ عورت جس کو نکاح کے بعد بغیر دخول و جماع (جسے عام اصطلاح میں بغیر رخصتی کہاجاتاہے) کی حالت میں طلاق ہوجائے تواس عورت یا لڑکی پر کوئی عدت نہیں ہے جس کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ]( سورۃ الاحزاب ۴۹ ) یعنی ’’اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر جماع کئے بغیر طلاق دے دو توان عورتوں پر کوئی عدت نہیں ہے ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ سورۃ طلاق کی آیت (وللائی لم یحضن )میں ان نابالغ لڑکیوں کی عدت کاتذکرہ ہے جن سے ان کے خاوند جماع کرچکے ہوں لیکن اگرکوئی شخص اس آیت کی یہ تفسیرکرے کہ اس سے وہ لڑکیاں مراد ہیں جن کانکاح بچپن میں ہوجائے پھر رخصتی سے قبل ان کو طلاق ہوجائے ان کی عدت تین ماہ ہے تویہ تفسیر سراسر غلط ہوگی جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ نابالغ لڑکی کانکاح جوان مرد اوربوڑھے شخص دونوں سے جائز ہے پھر اگر وہ لڑکی جماع کے قابل ہوتواس سے جماع بھی جائزہے اس کا ثبوت قرآن کی مذکورہ بالا سورۃ طلاق والی آیت اوربی بی عائشہ کے نکاح والی حدیث ہے اوراسی پر امت |