مؤلف صاحب نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کوبڑی عمر کاثابت کرنے کے لئے یہ حدیث بھی ذکرکی ہے کہ’’ ایک بار اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی ناک بہہ رہی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسکو صاف کیا،بی بی عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا،یارسول اللہ !اگر آپ مجھے فرماتے میں اسکی ناک صاف کردیتی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عائشہ!میں اس سے محبت کرتاہوں تم ان سے محبت کرو‘‘اس حدیث سے فاضل مؤلف نے یہ دلیل لی ہے کہ’’عام طورپرایسے کام کے لئے کسی بڑی عمر والے کوچھوٹے کی خدمت کیلئے کہاجاتاہے لہذا اس دلیل سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بی بی عائشہ رضی الله عنها سے چھوٹے ہوئے ا وراسامہ رضی اللہ عنہ کی عمررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بیس سال تھی جیساکہ خطیب نے مشکواۃ کے رواۃ کے ترجمہ میں لکھاہے‘‘حالانکہ مشکواۃ کے آخرمیں امام ولی الدین الخطیب نے اسامہ رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں جو لکھاہے اسکے الفاظ یہ ہیں: ﴿ قبض النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وھوا بن عشرین سنۃ وقیل غیرذالک ٭ المشکواۃ مع شرح طیبی ص۱۷۸ ج۱۲﴾ یعنی’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اسامہ رضی اللہ عنہ کی عمربیس سال تھی اوراسکے خلاف بھی قول موجود ہے ‘‘ یہ ہے مؤلف صاحب کی دیانت وامانت کاحال کہ انھوں نے امام ولی الدین خطیب کایہ لفظ (وغیر ذالک) سرے سے حذف ہی کردیامذید برآں اس حدیث میں ایساکوئی لفظ کہاں ہے جس سے یہ معلوم ہوکہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے کم عمرکے تھے اوراگر بالفرض ایساہوبھی توکیایہ عام مشاہدے کی بات نہیں کہ بسااوقات بعض بچے اپنی ہی عمرکے دوسرے بچوں کے مقابلے نسبتاً زیادہ سنجیدہ ،ہوشیار اورعقلمندہوتے ہیں اور بی بی عائشہ کاشمار تو ویسے بھی فقہاء صحابہ میں ہوتاہے اسلئے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس عمر میں سمجھدار ی کی باتیں کوئی بعید از قیاس یاانہونی بات نہیں ہے اورمؤلف رسالہ کے نزدیک اگریہی علمی باتیں ہیں تو پھر معذرت کے ساتھ کہناپڑے گاکہ دنیامیں جہالت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ مؤلف رسالہ کی بدحواسیاں: مؤلف رسالہ نے چونکہ دل میں یہ بات ٹھان لی ہے کہ وہ ہر حال میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح والی |