بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا او ر بی بی سودہ رضي الله عنها میں سے کس کانکاح پہلے ہوا‘‘اس باب میں امام جریرطبری رحمہ اللہ نے یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب بن ابی بلتعہ کی وہی روایت بیان کی ہے جس میں ہے کہ ہے بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعدخولہ بنت حکیم نے مکہ میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاعقد کرایااوراس وقت بی بی کی عمر چھ برس تھی اورجب نکاح ہواتو بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نو(۹) برس تھییہ تمام شہادتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ صحیح بخاری میں وارد بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح والی وہ حدیث قطعی طور پر صحیح ہے جس کے راوی ہشام بن عروہ ہیں۔ مؤلف رسالہ کی بددیانتیاں: امام ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں اس مندرجہ بالا روایت کونقل کرکے اس مسئلہ میں اپنی رائے کوظاہر کردیاہے لیکن مؤلف رسالہ نے طبری کی تاریخ سے یہ حوالہ دیاہے کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت ابوبکر صدیق کے چار بچے دو بیوں سے دور جاہلیت میں اسلام سے قبل پیداہوئے اوردعویٰ کیاہے کہ یہ طبری کااپناقول ہے حالانکہ یہ بات سراسر جھوٹ اورجہالت پرمبنی ہے یہاں ہم تاریخ طبری سے وہ حوالہ نقل کئے دیتے ہیں جس کاحوالہ فاضل مؤلف صاحب دے رہے ہیں تاکہ دودھ کادودھ اورپانی کا پانی ہوجائے اوراس ضمن میں مؤلف کی بددیانتی بھی ظاہر ہوجائے اس عبارت کاعنوان اورسند یہ ہے : ﴿ ذکر اسماء نساء ابی بکر الصدیق رحمۃ اللّٰه علیہ٭ حدث علی بن محمد عمن حدثہ ومن ذکرت من شیوخہ قال تزوج ابوبکر…٭ تاریخ طبری ص۶۱۶ ج۲ ﴾ یعنی ’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عورتوں کا تذکرۃ : ذکر کیاہے علی بن محمد نے ان لوگوں سے جنہوں نے اس کو یہ واقعہ بیان کیااوراسکے شیوخ سے ابوبکر رضي الله عنها نے‘‘بقول مؤلف رسالہ یہ امام طبری رحمہ اللہ کااپناکلام ہے حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ یہ امام طبری رحمہ اللہ کاکلام نہیں بلکہ علی بن محمد کاکلام ہے اوراس نے اپنے شیوخ اوراساتذہ سے اس واقعہ کوبیان کیاہے جن کے نام یہاں مذکورنہیں ہیں یعنی روای مجہول اورغیر معروف ہیں اسلئے امام طبری رحمہ اللہ اس جھوٹ سے بری الذمہ ہیں جو اس میں بولا گیاہے اورمؤلف رسالہ نے زیر عنوان ’’شق القمر اورام المؤمنین ‘‘ |