دیاجاسکتاہوخاص طورسے اس وقت جب دونوں میں سے ایک حدیث بخاری یامسلم میں آجائے اصول حدیث کے مطابق ایسی صورت میں بخاری ومسلم پرعمل ہوگااورمؤلف رسالہ نے حافظ سخاوی کے حوالے سے کچھ قاعدے لکھے ہیں ان میں سے انکی غرض اس قاعدہ سے ہیکہ’’جس روایت میں اس قسم کے مضامین ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہوں انہیں رد کردیاجائیگا‘‘اس قاعدہ سے مؤلف رسالہ کی غرض یہ ہے کہ چونکہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث شان نبوی کے خلاف ہے اس لئے وہ ضعیف و غیر مقبول ہے ہمیں حافظ سخاوی کے قواعد سے اتفاق ہے مگر مؤلف صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ صحیح بخاری و مسلم میں باتفاق علماء و محدثین و بااجماع امت مسلمہ ایسی کوئی حدیث نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہوچناچہ اگر یہ مذکورہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہوتی توبخاری میں کبھی نہ ملتی یعنی اس قسم کی حدیثوں کی جگہ صحاح کی کتابیں نہیں محدثین کی لکھی ہوئی موضوعات کی کتابیں ہیں اورمعلوم ہوناچاہیے کہ صحیح بخاری کو یہبلنددرجہ ملاہی اسلئے کہ وہ نہ صرف صحت میں مستند ہے بلکہ اصول حدیث کے مطابق بھی اعلیٰ درجہ پر ہے اورجس اصول کا قرشی صاحب تذکرہ کررہے ہیں وہ بہت عام فہم اصول ہے کیاقرشی صاحب یہ کہناچاہتے ہیں کہ معاذ اللہ امام بخاری اصول حدیث سے بھی ناواقف تھے جو ایک ایسی حدیث کواپنی صحیح میں نقل کربیٹھے جو شان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی خلاف ہے مگرجوشخص لکیرکافقیرہوتوایسے مسکین کوکوئی کیاسمجھائے یہ باتین تو اہل علم سے تعلق رکھتی ہیں اورآخرمیں ہم چاہتے ہیں کہ ہشام بن عروہ کے بارے میں جو اسماء الرجال کے ماہرین کی رائے ہے وہ بھی اختصار کے ساتھ نقل کردی جائے تاکہ ایک راوی کی حیثیت سے ہشام کامقام واضح ہوجائے، ہشام بن عروہ کے بارے میں محمدبن سعد نے کہا’’ثقہ ثبت حجۃ‘‘ اور یعقوب بن شیبہ نے کہا’’ثقہ ثبت‘‘ اورابوحاتم رازی نے فرمایا’’ثقہ امام فی الحدیث‘‘ اورابن خراش کاقول ہے کہ ’’صدوق‘‘اورالعجلی نے کہا’’ثقہ‘‘ اورابن حبان نے بھی ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہشام کو ’’متقن حافظ ‘‘ کہا ہے یہ تما م اقوال ثابت کرتے ہیں کہ ہشام بن عروہ قابل اعتماد اورمعتبر راوی ہے اوراس کی روایت تمام اہل علم کے نزدیک حجت ہے۔ |