کے سامنے صحابہ کرام سے سرزد ہوئے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پرتنبیہ نہیں کی بلکہ ان کوبرقرار رکھامذید برآں صحابہ کرام کے اقول و اعمال کوبھی حدیث کہاجاتاہے اوراسکے لئے حدیث موقوف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اسی طرح ہروہ بات جو قال اللہ تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے ہمیشہ قرآنی آیت نہیں ہوتی بلکہ احادیث میں بھی قال اللہ تعالیٰ کے الفاظ اکثر آتے ہیں اورمحدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کوحدیث قدسی کہاجاتا ہے ،پس معلو م ہواکہ منکرین حدیث کی ایک اہم شناختی علامت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ علم حدیث کے ضمن میں محدثین کی وضع کردہ بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔ حصہ اول پرضمنی اعتراضا ت کے جوابات: قرشی صاحب نے اپنے پہلے رسالے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کونشانہ تنقید بنایاتھااوراب دوسرے رسالے میں بھی صحیح بخاری کی ایک حدیث پرطعن کی ہے یعنی قرشی صاحب نے منکرین حدیث کے راستے پرقدم بقدم آگے بڑھنا شروع کردیاہے انھوں نے اس مذکورہ حدیث کے الفاظ یہ نقل کئے ہیں: ﴿ ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ سے نکاح کیاتوام رومان میری ماں میرے پاس آئیں اورمجھکو دن کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر لے گئیں میں اس وقت ڈر گئی جب ایکایکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آگئے اورمجھ سے صحبت کی ٭ بحوالہ صحیح بخاری ترجمہ علامہ وحیدالزماں﴾ اس حدیث کونقل کرکے قرشی صاحب نے اسے ہشام بن عروہ کاقول قرار دے کر رد کرنے کی کوشش فرمائی ہے اوراعتراض یہ کیاہے کہ اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رسالت پرحرف آتاہے کیونکہ اس میں ایک ڈری سہمی ہوئی لڑکی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت کرنے کاذکرہے حالانکہ اس حدیث کے جو اصل عربی الفاظ ہیں ان میں ایساکوئی تاثر نہیں پایاجاتاجس قسم کاتاثر قرشی صاحب نے وحید الزماں کے ترجمہ کونقل کرکے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں: ﴿ حدثنی فروۃ بن المغراء حدثنا علی بن مسہر عن ہشام عن ابیہ عن |