اس ترجمہ پرمیری نظرپڑی تواس کی شرح میں یہ لکھاہواپایاکہ: ﴿ یہ انکی عدت ہے جس کا حیض عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیاہے یاجنہیں حیض آنا شروع ہی نہیں ہواہے ،نوٹ : واضح رہے کہ نادر طورپر ایسابھی ہوتاہے کہ عورت سن بلوغت کوپہنچ جاتی ہے اوراسے حیض نہیں آتا٭حاشیہ ۱ ص۱۵۹۳﴾ یہاں فاضل مفسر نے جو ’’نوٹ ‘‘ لگایاہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن ایسابہت ہی شاذہوتاہے کہ کوئی لڑکی سن بلوغت کوپہنچ جائے اوراسے حیض نہ آئے اس لئے معلوم ہوناچاہیے کہ اس آیت کریمہ سے اصل مراد وہ لڑکی ہے جسے سن بلوغت سے قبل نکاح اور رخصتی کے بعد طلاق ہوگئی ہوجس طرح کہ ائمہ سلف نے اس آیت کی تفسیر میں لکھاہے اس لئے اس تفسیر سے کسی کویہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ مذکورہ آیت میں صرف ان لڑکیوں کی عدت کاذکر ہے جن کا فاضل مفسرنے ضمنی طورپر تذکرہ کیاہے بلکہ یہاں اصل تذکرہ ان لڑکیوں کی عدت کا ہے جن کو صغر سنی کی وجہ سے حیض نہ آیاہو۔ ہشام بن عروہ پرمؤلف کی تنقید کا جواب: مؤلف کتاب ’’آؤ ناموس رسالت کی حفاظت کریں‘‘نے صحیح بخاری کی زیر بحث مذکورہ روایت کے راوی ہشام بن عروہ اورمحدث کبیر پر کڑی تنقید کی ہے اوراس ضمن میں قرشی صاحب نے جو انداز بیان اختیار کیاہے وہ کسی بھی ذی علم شخص کے شایان شان نہیں ہے وہ لکھتے ہیں کہ: ﴿ ھشام بن عروہ کی زندگی کے دو دورہیں ایک عراق جانے سے قبل اوردوسرا عراق جانے کے بعدکا ہے ، ان کی عراق جانے سے قبل کی مروی احادیث مقبول ہیں اورعراق جانے کے بعدکی روایات فتنہ سبائیت کی سازش کانتیجہ ہیں﴾ اس کے علاوہ مؤلف نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ: ﴿ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے سب راوی عراقی اورکوفی ہیں اورکوئی دوسرانہیں اورامام مالک رحمہ اللہ نے ہشام بن عروہ پرتنقید کی ہے اورکہاہے کہ ان کی عراقی احادیث مردود ہیں اور |