عالم سے نہیں بن پڑابالکل غلط ہے کیونکہ اس نکاح کی دلیل امام بخاری رحمہ اللہ نے خود اس باب کے تحت سورۃ طلاق کی آیت نقل کرکے دیدی ہے کیونکہ انھوں نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح والی حدیث بعد میں نقل کی ہے اورپہلے قرآن کی آیت نقل کی ہے جب ایساہے توکون ایساعالم ہے جو قرآن سے بھی جاہل ہواورغیر مسلموں کے اس سوال کا جواب نہ دے سکے نیز معلوم ہوناچاہیے کہ غیر مسلموں کے اسلام پر اعتراضات کودرخوراعتنا وہی لوگ سمجھتے ہیں جو کمزور ایمان کے حامل ہوں جبکہ وہ لوگ جو مضبوط ایمان رکھتے ہوں ان کے ایمان غیرمسلموں کے اعتراضات سے متززل نہیں ہوتے اورنہ ہی وہ غیر مسلموں کے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی عقلی اعتراض کو دلیل سمجھتے ہیں یااہمیت دیتے ہیں۔ سورۃ طلاق کی مذکورہ آیت کی معنوی تحریف: قرشی صاحب نے کہاہے کہ مسلمانوں کوکیاہوگیا ہے کہ وہ دشمنان اسلام کی سازشوں اورسبائی روایات کوجو قرآن سے ٹکراتی ہیں کیوں نہیں سمجھتے گویامؤلف کتاب نے صحیح بخاری میں وارد بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح والی روایت کو دشمنان اسلام کی اورسبائی یعنی شیعہ فرقے کی سازش کہاہے اسکے جواب میں ہم اسکے سوا اورکیاکہیں کہ : ﴿ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ٭ سورۃ کھف ۵ ﴾ یعنی ’’ان کواورانکے آباو اجداد کواس بات کاکوئی علم نہیں بہت بڑاکلمہ ہے جو ان کے منہ سے نکلتاہے بولتے نہیں یہ لوگ مگر جھوٹ ‘‘ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث کو سبائی سازش کہتے ہیں درحقیقت صحیح بخاری کی یہ حدیث سبائی سازش نہیں بلکہ وہ نظریہ سبائی سازش ہے جس کا شکاریہ لوگ ہورہے ہیں کیونکہ صحیح بخاری کی اس حدیث کا انکار اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ سورہ طلاق کی مذکورہ آیت کو نہ بدل دیاجائے جیساکہ اس آیت کی معنوی تحریف تو عمل میں آہی چکی ہے اب صرف اسکی لفظی تحریف باقی ہے معنوی تحریف کی ابتداء سبائی فرقے کی جانب سے شروع ہوچکی ہے ملاحظہ فرمایئے ایک |