چاہتاہے اوراسے ہدایت دیتاہے جو ہدایت چاہتاہے حالانکہ عربی لغت کے اعتبارسے یہ مفہوم بالکل غلط ہے مزید برآں جولوگ قرآن کی تفسیرمحض عربی لغت کی مد د سے کرناچاہتے ہیں انہیں معلوم ہوناچاہیے کہ عربی لغت قرآ ن کے بعد وجود میں آئی ہے اسلئے عربی لغت توخودقرآن کی محتاج ہے وہ قرآن کااحاطہ کس طرح کرسکتی ہے دوسری بات جس بنیاد پرمنکرین حدیث احادیث کوقرآن کی تفسیر شمارکرنے سے کتراتے ہیں وہ بنیاد عربی لغت میں بھی جوں کی توں موجودہے یعنی عربی لغت پرعجمی اہل علم حضرات کی اجارہ داری کیونکہ جس طرح احادیث کی کتابیں بخارا ،نیشاپوراورسمرقند سے تعلق رکھنے والوں نے مرتبکیں ہیں اسی طرح عربی لغت میں بھی نمایاں کام انہیں لوگوں کاہے جن کی مادری زبان عربی نہیں تھی مثلاً القاموس المحیط للامام فیروزآبادی ،مختار الصاح لابی بکرالرازی،مفرادات الفاظ القرآن للامام راغب اصفہانی،لسان العرب لابن المنظور الافریقی وغیرہ پس کسی کے لئے بھی انکارحدیث کے بعدقرآن کے مفہوم تک پہنچنے کاکوئی راستہ نہیں ہے ۔ منکرین حدیث کی پہچان: قرآن کریم بنیادی طورپرعقیدہ اوراسلام کے بنیادی اصولوں کوبیان کرنے والی کتاب ہے اسی لئے احکامات سے متعلق آیت اکثر وبیشتر مجمل ہیں جن پرعمل کرنے کیلئے کسی نہ کسی درجہ میں احادیث نبویہ کی جانب رجوع کرنااز بس ضروری ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ جب انکار حدیث میں مبتلاافراد کو منکرین احادیث کے لقب سے پکار جائے تو وہ اکثر وبیشتر برامان جاتے ہیں کیونکہ روزمرہ کے معمولات میں بے شمار ایسے معاملات آتے ہیں جہاں وہ بھی احادیث پرعمل کرنے کے لئے اپنے آپ کومجبورپاتے ہیں چناچہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں منکرحدیث نہ کہا جائے بلکہ سیرت طیبہ کامحافظ یاناموس رسالت کی حفاظت کرنے والاکہاجائے مثلاًمنکرین حدیث کے موجودہ درورکے سرخیل غلام احمد پرویز صاحب سے ایک ٹی وی انٹرویومیں جب یہ سوال کیاگیاکہ لوگ آپ کو منکرحدیث کیوں کہتے ہیں توانھوں نے کہاکہ مجھے خود نہیں معلوم کہ لوگ ہمیں منکر حدیث کیوں کہتے ہیں حالانکہ میں نے اپنی تصانیف میں جہاں کہیں بھی ضروری سمجھاہے احادیث سے استفادہ کیاہے اوراسکے علاوہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پرمیر ی ایک مستقل کتاب ہے موجود ہے جسمیں میں نے بہت |