اوربڑی عمر کی عورت کے مابین تقسیم ضروری ہے یانہیں انھو ں نے فرمایاہاں ضروری ہے ‘‘اس قول سے ثابت ہوا کہ امام مالک کے نزدیک نابالغ لڑکی سے نکاح اورجماع جائز ہے جب وہ جماع کے قابل ہو۔ غلام احمد پرویز صاحب اپنے سوال وجواب کے مجموعہ’’ قرآنی فیصلے‘‘میں لکھتے ہیں کہ نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح جائزنہیں، اوراسکی دلیل قرآن کریم میں سوۃ نساء کی آیت ہے جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ﴿ وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ ﴾ یعنی ’’یتیموں کی آزمائش کرلوجب وہ شادی کی عمر کوپہنچیں‘‘اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے پرویز صاحب لکھتے ہیں کہ اس سے معلو م ہوتاہے کہ شادی ہر عمر میں نہیں کی جاسکتی بلکہ شادی کی ایک خاص عمرہے یعنی بلوغت سے قبل شادی نہیں ہوسکتی حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ یہاں سورۃ نساء کی اس آیت میں نکاح سے مراد جماع ہے کیونکہ نکاح کا لفظ عربی زبان میں صرف اس خطبہ کیلئے استعمال نہیں ہوتاجو نکاح کے وقت پڑھاجاتاہے بلکہ اسکااطلاق میاں بیوی کی مباشرت پر بھی ہوتاہے اسکے علاوہ معلوم ہوناچاہیے کہ یہاں مذکر کاصیغہ استعمال ہواہے یعنی اس آیت کا مطلب ہے کہ جب یتیم لڑکا اس قابل ہوجائے کے کسی عورت سے جماع کر سکے اورتم سمجھداری کے آثار بھی پاؤ تواسے اس کا مال سونپ دوپس اس ضمن میں صحیح بات یہی ہے کہ نابالغ لڑکی سے نکاح اوراگر وہ جماع کے قابل ہوتو جماع بھی جائزہے۔ نابالغ لڑکی کے نکاح کا اختیار باپ کوہے : امام شافعی رحمہ اللہ کتاب الام میں فرماتے ہیں کہ: ﴿ قال الشافعی : عن عائشة رضي اللّٰه عنها قالت نکحنی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وانا ابنۃ ست او سبع سنین و بنی بی و انا ابنۃ تسع : الشک من الشافعی ٭ کتاب الام ص۱۳ ج۵﴾ یعنی ’’ کہاشافعی رحمہ اللہ نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چھ یاسات سال کی عمر میں منسوب ہوئیں اورنوسال کی عمرمیں ان کی رخصتی ہوئی ‘‘ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بناپر نابالغ |