ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محض اس قسم کے دلائل نقل کر کے مؤلف صاحب اپنے آپ کو عقل مند اور پوری امت اسلامیہ کے علماء فقہاء ومحدثین کو جاہل اور بے وقوف ثابت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جن عقلی دلائل سے مؤلف صاحب بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بڑھانا چاہتے ہیں وہ تمام امت اسلامیہ کے مفسرین، محدثین اور مؤرخین کے ہی بیان کردہ ہیں یعنی ان تمام باتوں کے علم میں ہونے کے باوجود ان تمام لوگوں نے یہ عقیدہ جمائے رکھا کہ نکاح کے وقت بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نو سال تھی صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کی بد عثلی دلائل کے ذریعہ منکرین حدیث کسی عامی آدمی کو تو اپنے دام میں گرفتار کر سکتے ہیں لیکن امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ نے قرآن وحدیث کی نصوص کے مقابلے میں اس قسم کی باتوں کی نہ پہلے کبھی پروا کی اور نہ کبھی آئندہ کان دھریں گے کیونکہ ان باتوں کا ٹکراؤ صریح طور پر قرآن وسنت کے دلائل سے ہوتا ہے اسلئے یہ بے بنیاد باتیں اور باطل نظریات رد کر دینے کی ہی قابل ہیں اور صحیح اور مستند بات یہی ہے کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئے اس کے بعد بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو اس وقت بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عرم اٹھارہ سال تھی پس امت مسلمہ میں سے جو کوئی بھی اس کے خلاف کوئی عقیدہ رکھتا ہو اسے اپنے اس عقیدہ سے رجوع کر لینا چاہیے اور اپنے دین وایمان کی خیر منانی چاہیے کیونکہ اس کا انکار قرآن اور احادیث صحیحہ کا انکار ہے۔ ﴿ وما علینا الا البلاغ المبین﴾ |