اسلامیہ کااجماع ہے ،اس ضمن میں امام مالک رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ کا قول پیش کیاجاچکاہے اورامام احمد رحمہ اللہ کاقول اب پیش خدمت ہے علامہ ابن بطال شرح صحیح بخاری ص۲۴۷ ج۷ میں لکھتے ہیں کہ : ﴿ اختلف العلماء فی الوقت الذی تدخل فیہ المرأۃ علی زوجھا اذا اختلف الزوج واھل المرأۃ فی ذالک فقالت طائفۃ تدخل علی زوجھا وھی بنت تسع سنین اتباعالحدیث عائشۃ ھذا قول احمد بن حنبل رحمہ اللّٰه وابی عبید وقال ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰه ناخذ بالتسع غیر انا نقول ان بلفتھا ولم تقدر علی الجماع کان لاھلھا منعھا وان لم تبلغ التسع وقویت علی الرجال لم یکن لھم منعھا من زوجھا وکان مالک رحمہ اللّٰه یقول لانفقۃ للصغیرۃ حتی تدرک و تطیق الرجال وقال الشافعی اذا قاربت البلوغ وکانت جیسمۃ تحتمل الجماع فلزوجھا ان یدخل بھا وانکانت لاتحمل الجماع فلا ھلھا منعھا من الزوج حتی تحتمل الجماع﴾ یعنی ’’ علمائے اسلام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ عورت کے نکاح کے بعد کب اورکس وقت رخصتی عمل میں لائی جائے جب خاوند اورعورت کے ورثاء کے مابین اختلاف ہوجائے ،اس میں امام احمد رحمہ اللہ اورامام ابوعبید رحمہ اللہ کا قو ل یہ ہے کہ جب کسی لڑکی کانکاح بچپن میں ہوجائے پھر اس کی عمر نو سال ہوجائے تو اسکو خاوند کے حوالے کردیاجائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ ہم نو سال کی مدت کو قبول کرتے ہیں لیکن اگر وہ اس مدت میں جماع کے قابل نہ ہوتواس کی رخصتی نہ کی جائے اوراگر کوئی لڑکی نوسال سے بھی قبل اپنے بدن اورجسامت کے اعتبار سے جماع کے قابل ہوجائے تولڑکی کے ورثا لڑکی کے خاوندکواس سے جماع کرنے سے نہیں روک سکتے اورامام مالک رحمہ اللہ نے کہاکہ جب تک لڑکی خاوندکے جماع کے قابل نہ ہوجائے اس وقت تک اس لڑکی کا خرچہ پانی خاوند پرنہیں ہے اورامام شافعی رحمہ اللہ کاقول یہ ہے کہ لڑکی جب بلوغت کے قابل ہوتواس سے جماع کرنا جائز ہے اوراگروہ جماع کے قابل نہ ہوتولڑکی کے اہل خانہ خاوند کو جماع کرنے سے روک سکتے ہیں اس سے معلوم ہواکہ نابالغ لڑکی سے نکاح اورجماع کے قابل ہونے |