مذکورہ بالا حدیث اور دلائل سے ایمانی علوم اور فکری امن کے درمیان مضبوط تعلق واضح ہے۔ اس میدان میں ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ علمائے ربانی سے ہی علم حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ فکری امن کی علامت ہیں ۔ ان علماء کی توجیہات اور رہنمائی نصوصِ شرعیہ اور قواعد سے صحیح استدلال اور صحیح فہم و شعور مہیا کرتی ہیں ۔ خاص طور پر نئے پیش آمدہ مسائل اور آفات میں بہترین منہج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ ﴾ (النساء: 83) ’’اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں ۔‘‘ اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ علم و تعلم کے میدان میں سیکھنے اور سکھانے والوں کا اللہ تعالیٰ کے متعلق بغیر علم کے بات کرنا کس قدر خطرناک ہے، اور کچھ لوگوں کا بغیر علم کے ان شرعی امور میں فتویٰ صادر کرنا جن کا تعلق حرام و حلال سے ہے، کس قدر تباہی و بربادی کا باعث ہے۔ جب وہ اس کے اہل نہیں تو یہ فکری امن کو تباہ برباد کرنے اور فکری انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ (4)… نیک اعمال ایک مسلمان کی زندگی میں نیک اعمال کو عبادات کے اہتمام و قیام میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اس کے بہترین اثرات ہیں ۔ جیسا کہ انشراح صدر، راحت و سکون، اطمینان اور وسعت رزق، امن و ایمان اور شعور و فہم۔ ان آثار کے متعلق قرآن مجید اور سنت نبویہ میں بہت سی نصوص موجود ہیں ، اور یہ کہ تقویٰ اور اعمال صالحہ پر دنیا و آخرت کی سعادت مندی کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: |