اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ (الزمر: 9) ’’(کیا یہ بہترہے) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیا م کر تے ہوئے عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؟ کہہ دے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں ۔‘‘ ایمانی علوم جن کی طرف قرآن مجید بلاتا ہے وہ تقویٰ اور علم کی فضیلت کو جمع کرنے کا باعث ہیں تاکہ نفع بخش علم، امن پسند معاشرہ کی تشکیل، سلوک کی استقامت، عدل و انصاف کے قیام، حقوق کی ادائیگی، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، مادیت پرستی سے دوری اور عداوت و دشمنی کے محرکات کو ختم کرنے کا باعث بن سکے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمانی علوم کی فضیلت بیان کی ہے اور اس کے خالص ترین مقاصد کو بیان فرمایاہے۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی ایسے راستہ پر چلا جس میں وہ علم تلاش کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستہ پر چلا دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے طالب علم کے پاؤں کے نیچے رضا مندی سے اپنے پر بچھاتے ہیں ، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جسے چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر ہے، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں ہے، بلکہ ان کی وراثت علم ہے جس نے اس کو حاصل کیا اس نے خیر کثیر حاصل کر لی۔‘‘ [1] |