مقدمہ الحمد للّٰه رب العالمین والصلوة والسلام علی سید المرسلین محمد و آلہ و اصحابہ اجمعین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین۔ دینِ اسلام میں منصب افتاء ایک انتہائی اہم عہدہ ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت خود اپنی طرف کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَسْتَفْتُوْنَكَ١ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ١ ﴾[1] ’’اے پیغمبر! لوگ تم سے (کلالہ کے متعلق) فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ فرما دیں کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز اور بلند پایہ تصنیف کا نام ’’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘‘ رکھا ہے یعنی مفتی حضرات سے جب دینی مسائل دریافت کیے جاتے ہیں تو ان کا جواب دیتے وقت گویا وہ اللہ رب العزت کی طرف سے دستخط کرتے ہیں، علامہ موصوف لکھتے ہیں: ’’جب ملوک و سلاطین کی طرف سے دستخط کرنے کا منصب اس قدر بلند ہے کہ دنیا میں اسے اعلیٰ مرتبہ شمار کیا جاتا ہے اور اس کی قدر و منزلت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو اللہ کی طرف سے دستخط کرنے کی عظمت و شان تو اس سے کہیں زیادہ بلند اور برتر ہے۔‘‘ [2] چونکہ فتویٰ کا موضوع اللہ کی طرف سے نازل شدہ احکام بیان کرنا ہے، تاکہ لوگ ان کے مطابق عمل کر سکیں، اس لیے مفتی کو اللہ تعالیٰ کا ترجمان قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مفتی کسی خاص امام کا نمائندہ نہیں بلکہ وہ امام المتقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہوتا ہے، جیسا کہ علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مفتی امت میں رسول اللہ کا قائم مقام ہوتا ہے، کیونکہ علماء حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام اپنے ترکہ میں درہم و دینار نہیں بلکہ بطور وراثت علم چھوڑتے ہیں۔‘‘ [3] منصب افتاء کی ذمہ داری اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی |