روزہ و اعتکاف کمزوری کی بنا پر روزہ ترک کرنا سوال:میری بیوی طبعی طور پر بہت کمزور ہے، وہ روزہ نہیں رکھ سکتی جبکہ میری مالی حالت اس قدر کمزور ہے کہ میں اس کی طرف سے کسی کو روزے بھی نہیں رکھوا سکتا، ایسے حالات میں میری بیوی کے متعلق کیا شرعی حکم ہے؟ جواب:روزوں کے متعلق حکم الٰہی یہ ہے کہ انہیں بروقت رکھا جائے، اگر کوئی عذر ہے تو انہیں بعد میں رکھ لیا جائے اگر بروقت یا بعد میں رکھنے کی ہمت نہیں ہے تو کسی مسکین کو روزے رکھوا دئیے جائیں، لیکن اگر روزے رکھوانے کی ہمت نہیں ہے۔ مالی حالت واقعی کمزور ہے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے انسان سے باز برس نہیں کریں گے کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے: ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ ﴾[1] ’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ چونکہ مفلوک الحال انسان اپنی بیوی کی طرف سے فدیہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور وہ عورت خود روزہ رکھنے کی ہمت نہیں رکھتی، ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ ان سے معافی کا معاملہ فرمائے گا۔ (ان شاء اللہ) روزے کو ترک کرنے والے امور سوال:وہ کون کون سے عذر ہیں جن کی وجہ سے روزہ ترک کیا جا سکتا ہے، نیز جب عذر ختم ہو جائے تو باقی دن کھانے پینے کی اجازت ہے یا وہ شام تک کوئی چیز کھائے اور نہ ہی کوئی چیز پئے، اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کیا ہدایات ہیں؟ جواب:قرآن کریم نے دو عذر ایسے بیان کیے ہیں جن کی بنا پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ١ ﴾[2] ’’تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر اور بیماری ایسے عذر ہیں جن کی بنا پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے لیکن مسافر اور مریض کو بعد میں روزہ رکھنا ہو گا۔ اس طرح حدیث میں ہے کہ حاملہ عورت اگر روزہ رکھنے کی صورت میں اپنے یا اپنے بچے کے متعلق خطرہ محسوس |