طہارت و وضو طہارت کے لیےصرف ڈھیلے استعمال کرنا سوال:ایک آدمی نے قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلے استعمال کئے پانی سے استنجا نہیں کیا، اس کے بعد وضو کر کے جماعت کرا دی، کیا شرعاً ایسا کرنا درست ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں فتوی دیں۔ جواب:واضح رہے کہ امامت کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے، امام کو چاہیے کہ وہ اپنے مقتدیوں کے سامنے قطعاً کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہو سکتا ہو، چونکہ امام مقتدیوں کے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے امام کے لیے بہترین اخلاق اور مثالی کردارکا حامل ہونا ضروری ہے بلا شبہ قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلے استعمال کرنے سے طہارت مکمل ہو جاتی ہے، اگر ایسا کرنے کے بعد باوضو ہو کر نماز پڑھاتا ہے تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ہے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو طہارت کے لیے تین پتھر ساتھ لے جائے، فراغت کے بعد انہیں استعمال کرنا طہارت کے لیے کافی ہے ۔[1] تاہم بہتر ہے کہ پانی سے استنجا کیا جائے کیونکہ پانی سے طہارت اور صفائی اچھی طرح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوندوں کو پانی سے استنجا کرنے کی تلقین کریں کیونکہ ایسے معاملات میں مجھے گفتگو کرنے سے شرم آتی ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے یعنی وہ پانی سے استنجا کرتے تھے۔‘‘ [2] اگر ڈھیلے اور پانی دونوں میسر ہوں اور ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی سے استنجا کیا جائے تو بہت بڑی فضیلت ہے، قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے اہل قباء کی طہارت کے متعلق فضیلت بیان فرمائی ہے۔ جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ہم ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی استعمال کرتے ہیں بہرحال امام کو چاہیے کہ وہ ایسی باتوں کا خیال رکھے اور مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی باتوں کو فتنہ وفساد کا ذریعہ نہ بنائیں، اگر مسئلے کا علم نہ ہو تو کسی اہل علم کی طرف رجوع کریں۔ (واﷲ اعلم) |