مساجد و اقاف مسجد کے غسل خانوں کی چھت پر رہائش رکھنا سوال:ہماری مسجدکے وضو خانہ اور طہارت خانوں کی چھت پر ایک کمرہ ہے، میں اس مسجد کا خطیب ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھوں اور رہائش کے لیے اس کمرے کو استعمال کروں جس کی سیڑھیاں بھی الگ ہیں، اس کا مسجد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، شرعی طور پر مجھے آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ جواب:مسجد کے تقدس کے پیش نظر حائضہ عورت کو مسجدمیں آنے جانے کی ممانعت ہے، مسجد کی چھت چونکہ اس کا حصہ ہوتی ہے، اس لیے بیوی بچوں کی رہائش کے لیے چھت وغیرہ کو بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے: ’’بلاشبہ میں حائضہ اور جنبی کے لیے مسجد میں داخل ہونے کو جائز قرار نہیں دیتا۔‘‘ [1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے۔ جب داخلہ ممنوع ہے تو مستقل قیام کیسے درست ہو سکتا ہے؟ ہاں اگر مسجد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو تو ان کے لیے گزرنا جائز ہے، صورت مسؤلہ میں جو بیان ہوا ہے کہ وہ کمرہ وضو خانہ اور طہارت خانوں کے اوپر ہے، اس جگہ کو مسجد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا لہٰذا ایسے کمرہ میں بیوی بچوں کو رہائش اختیار کرنے کی گنجائش موجود ہے، لہٰذا اس قسم کے کمرہ میں رہائش رکھی جا سکتی ہے۔ (واﷲ اعلم) مسجد کا سامان غریبوں کو دینا سوال:ہماری مسجد کو کسی صاحب ثروت نے از سر نو تعمیر کر دیا ہے، اس کا پہلا سامان مثلاً ٹی آر اور گاڈر وغیرہ فالتو پڑے ہیں، کیا کسی محتاج یا غریب کو دئیے جا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنے مکان کی تعمیر میں انہیں استعمال کرے؟ کتاب وسنت کے مطابق فتویٰ درکار ہے۔ جواب:اگر مسجد ضرورت مند ہے تو انہیں فروخت کر کے مسجد کی ضروریات کو پورا کیا جائے اور اگر مسجد کو کسی قسم کی ضرورت نہیں اور وہ سامان فالتو پڑا ہے تو اسے کسی غریب ضرورت مند کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ وہ اسے اپنے استعمال میں لا سکے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تیری قوم عہد جاہلیت یا کفر سے نئی نئی اسلام میں نہ |