اذان و نماز ننگے سر نماز پڑھنا سوال:ہمارے ہاں بوڑھے تو کیا اکثر نوجوان بھی ننگے سر نماز پڑھتے ہیں، کیا ایسا کرنا کوئی سنت ہے یا سینہ زوری کے طور پر اسے اختیار کیا گیا ہے؟ ہم نے عرب کو دیکھا ہے کہ وہ عام حالات میں بھی کوئی خال خال ہی ننگے سر نظر آتا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کے متعلق وضاحت کریں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ جواب:ننگے سر نماز پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں، لیکن اسے مستحب قرار دینا سینہ زوری ہے، ہمارے ہاں خواہ مخواہ بعض لوگوں نے ننگے سر نماز پڑھنے کو وجہ نزاع بنا لیا ہے۔ دراصل اس سلسلہ میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں، جبکہ کچھ لوگ رد عمل کے طور پر اس انتہاء کو پہنچ گئے ہیں کہ اس مسئلہ کو محض جواز کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے انہوں نے اسے ایک پسندیدہ عمل قرار دے کر اپنا شعار بنا لیا ہے اور وہ اپنے پاس رومال یا ٹوپی ہوتے ہوئے بھی محض ضد اور ہٹ دھرمی سے ننگے سر ہی نماز پڑھتے ہیں، حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾[1] ’’اے بنی آدم! جب تم کسی مسجد میں جاؤ تو آراستہ ہو کر جاؤ۔‘‘ مسجد میں جانے سے مراد نماز کے لیے جانا ہے اور دوران نماز لباس زیب تن کرنا ہے، آیت کریمہ میں زینت سے مراد اعلیٰ قسم کا لباس نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ نماز کے لیے جسم کے اس حصہ کو ضرور ڈھانپنا چاہیے جس کا کھلا رہنا معیوب ہے، چونکہ لباس والا جسم ننگے جسم کے مقابلہ میں مزین نظر آتا ہے اس لیے اسے زینت سے تعبیر کیا گیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کریمہ سے یہی مسئلہ ثابت کیا ہے۔ چنانچہ شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو پیش کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آیت کریمہ میں اخذ زینت سے مراد لباس زیب تن کرنا ہے، اس کی زیبائش و آرائش قطعاً مراد نہیں ہے۔ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول سر ڈھانپنے کا تھا جیسا کہ درج ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے: |